ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2008 |
اكستان |
|
قسط : ٣ اللہ ہی خالق ہے اور و ہی راہ دِکھانے والا ہے حضرت مولاناطارق جمیل صاحب ١٦فروری کو جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے اِس موقع پر اَساتذہ کرام اور طلباء سے تفصیلی خطاب فرمایا جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (اِدارہ) نبی کیسے محنت کرتے ہیں؟ وہ بھی بتایا طریقہ اللہ تعالیٰ نے رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّنَھَارًا اور ایک اور آیت اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا ۔ سَبْحًا کا کیا مطلب ہے ؟ تیرنا۔کیوں بھئی مکہ میں پانی تھا تو تیرنا کہاں تھا ؟ اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا آپ کے لیے خاص اِنَّ لَکَ تقدیم ہے لَکَ خبر پہلے آرہی ہے اور مَطَالِبْ بھی پہلے آرہا ہے بعد میں طاقت تاکید پیدا ہونے کے بعد کہا سَبْحًا طَوِیْلًا لمبا تیرنا، مکہ میں تو پینے کا پانی نہیں تھا تو آپ کہاں تیرتے تھے آپ نے تو تیرنا مدینے میں سیکھا جب چھوٹے تھے چھ سات سال کی عمر میں تو وادی عتیق گئے اَب بھی اُس کا نام وادی عتیق ہے جو مدینے کے جنوب کی طرف ہے۔وہاں بارشوں کاپانی اکٹھاہوجاتاتھاتوایک جھیل سی بن جاتی تھی تووہاں بچے نہاتے بھی تھے اُس سے زراعت بھی ہوتی تھی وہاں آپ نے تیرناسیکھامکہ میں توپانی کاایک قطرہ بھی نہیں تھاتوآپ کے دِن کے کاموں کوآپ کی نمازکو ،ذکرکو،دَعوت کو،تبلیغ کو، گشتوں کو، اِن ساری چیزوں کواللہ تعالیٰ کہہ رہے ہیں سَبْحًاطَوِیْلاً ۔ تیرنے سے کیوں تشبیہ دی ہے جو آدمی چلنے والاہوتاہے وہ چاہے آہستہ چلے یاتیزچلے صرف تقدیم وتاخیرکافرق پڑتاہے چلتے چلتے کہیں بیٹھ کر چائے پینے لگ جائے اُس کے اختیارمیں اُس کی لگام اُس کے اپنے ہاتھ میںہے کہ کہیں بریک لگالی نمازپڑھ لی ،کہیں بریک لگالی پیشاب کرلیا، کہیں بریک لگائی پانی پی لیا،کہیں بریک لگائی کھاناکھالیا،تواپنے خراماخراماوہ چلتابھی ہے رُکتابھی ہے ٹھیرتابھی ہے اور وہ دوڑاتابھی ہے گاڑی