ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2008 |
اكستان |
|
البتہ اگر بتانے والی عورت دیندا رہواورسچی معلوم ہوتی ہوتونکاح ختم کرنابہترہوگا۔ متفرق مسائل : مسئلہ : عورت کادُودھ کسی دوامیں ڈ الناجائزنہیں اوراگرڈال دیاتواب اُس کو کھا نا اور لگانا جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔ اِسی طرح دواکے طورپرآنکھ میں یاکان میں دُودھ ڈالنابھی جائزنہیں۔ عورتوں کے دُودھ کابینک : اِس بارے میں چنداُصولی باتیں پیش ِنظررکھناضروری ہیں : 1 ۔ بلاضرورت ایک عورت کادُودھ کسی دُوسرے کے بچے کوپلاناصحیح نہیں۔ 2 ۔ کوئی عورت اگرکسی دُوسرے کے بچے کودُودھ پلائے تواِس بات کوخوب یادرکھے یالکھ لے بلکہ اُس کوچاہیے کہ اورلوگوں کوبھی اِس سے آگاہ کردے۔ اِس لیے جودُودھ جمع کیاجائے اُس پرخوب احتیاط اورذمہ داری کے ساتھ دُودھ والی عورت کانا م وپتہ چسپاں ہوتاکہ بچے کے لواحقین اِس سے آگاہی حاصل کرلیں۔ 3 ۔ اِنسانی دُودھ کی بیع وشراء جائزنہیں۔ 4 ۔ اِس کے لیے متبادل آسان طریقہ یہ ہے کہ جس بچے کوضرورت ہواُس کے لیے ایک اَنااُجرت پر رکھ لی جائے۔ اُس سے ایک عورت کاروزگاربھی لگ جائے گا اوردُودھ حاصل کرنے میں بیع وشراء کا جو عنصر لامحالہ داخل ہوگا اُس کاسدِّباب بھی ہوسکے گا۔ مسئلہ : فاسق وفاجریاکافرعورت کادُودھ کسی مسلمان بچے کوپلاناجائزہے لیکن پسندیدہ نہیں کیونکہ اِس طرح عام طو رسے بچے کے اَخلاق متاثرہوتے ہیں۔ اِس لیے ایسی عورت کے دُودھ سے جہاں تک ہوسکے پرہیز کرناچاہیے۔