ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2008 |
اكستان |
|
اب اگر سچ مچ لڑنا شروع کردوتومدرسہ بھی ختم ہو جائے گااوریہ سلسلہ بھی رُک جائے گا سارا اورپھرہم سب مدرسوں میںپڑھنے پڑھانے والے لوگ ہیں ہمیں تمام اَساتذہ یہی سمجھاتے ہیں کہ ہم لوگ جدوجہدکے مکلف ہیں صلاحیت کے مکلف ہیں نتیجہ کے نہیں، اَنبیاء کرام علیٰ نبینا وعلیہم الصلٰوة والسلام سب کے سب نتیجہ کے مکلف نہیں دعوت لے کرآئے انسانیت کے سامنے اللہ کاپیغام دیاتوحیدپیش کی دعوت دی اللہ کی طرف ،قبول نہیں ہوئی۔ ایسے پیغمبربھی ہیں جن کو ایک اُمتی بھی نہیں ملاکسی کوصرف ایک اُمتی کسی صرف دو اُمتی کسی کو صرف تین اُمتی کسی کو چھوٹی سی جماعت۔ کیا اَب ہم اِس کا یہ معنٰی کریں کہ یہ اَنبیاء ناکام ہوگئے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ اپناکام ٹھیک ٹھاک کیاباقی نہیں مانے تو کیا کرسکتے ہیں۔ فَعُمِّیَتْ عَلَیْکُمْ اَنُلْزِمُکُمُوْھَا وَاَنْتُمْ لَھَا کَارِھُوْنَ نوح علیہ السلام نے کہا کہ تم اِس کااِنکا ر کر و میں تمہیں اُس کے ساتھ زبردستی باندھتا رہوں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا ،تم خود اَندھے ہو جاؤ تو میں کیا کروں گا ، اِس بے نیازی کے ساتھ دعوت دی اُن کو، نہیں مانی اُن لوگوں نے اِنَّکَ لَاتَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ حضورعلیہ الصلٰوة ولسلام اپنے چچا کو ایمان نہیں دے سکے ،کتنی خواہش تھی کتنی کوشش تھی اُن کی، کتنے قریب تھے اُن کے، لیکن اللہ نے ہدایت نہیں لکھی تھی تونہیں ملی، کیا کرسکتے ہیں اِس پر۔ لہٰذا مساعی جو ہے یہ ہماری ذمّہ داری ہے جتنی ہمارے اندر استطاعت ہو۔جب ہمارے پاس طاقت نہ ہواور ہم لڑتے ہیں تواِس کامعنٰی یہ ہے کہ ہم طاقت سے زیادہ اپنے اُوپرامتحان ڈالتے ہیں توجب طاقت سے زیادہ اپنے اُوپرامتحان ڈالوگے توپھراللہ امتحان میں ڈال دے گا تو پھر کیا کروگے؟ تواللہ تعالیٰ پھر بندے کی بات مانتے ہیں ۔یوسف علیہ السلام نے بھی کہہ دیاکہ اَلسِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْ اِلَیْہِ تو فَاسْتَجَابَ لَہ رَبُّہ بہرحال اگرہم اپنی قوت سے زیادہ امتحان کی خواہش کرتے ہیں تواللہ تومان لے گا صحابہ کرام پر ا اِمتحا نا ت آئے ،یااللہ کیاہوگیاہمارے ساتھ،ہم محروم ہوگئے ہیں تواَب مزاچکھ لیا تواَب کیوں گلا کرتے ہوخیروہ ٹھیک ہے کوئی بات نہیں۔ اَب جنت تواُن کی یقینی ہے ہمارا ایمان ہے کہ صحابہ کرامسب جنت میں ہیں۔ لیکن اَب یہ چیزیںجوہیں اِس کو اپنے حدود میں ہمیں رکھناچاہیے۔ ہمارے نوجوان جب تبلیغ کرتے ہیں جہادکے لیے تو کہتے ہیں ''جنت کا مختصر راستہ '' پندرہ پندرہ سال کے بچوں کوبیس بیس سال کے بچوں کو لے جاتے ہیں اور والدین کی اجازت نہیںہے اور کہتے ہیں جہاد