ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2008 |
اكستان |
|
ہونی چاہیے۔ حضور ۖ نے عافیت سے زیادہ اورکسی چیز کی دُعاء نہیں کی اور پھر اُمت کو بھی یہ حکم دیاہے کہ اللہ سے عافیت مانگاکرو سَلُوا اللّٰہَ الْعَافِیَةَ …… اوراپنے دُشمن کا سامنا کرنے کی تمنا نہ کیا کرو اِذَا لَقِیْتُمْ فَاثْبُتُوْا ہاں اگر مقدر ہو آمنا سامنا ہوجائے پھر بزدلی مت دکھاؤڈٹ جاؤ۔ اَب ہم آخری حصے پرپہلے عمل کرتے ہیں اورپہلے والے حصے کوسرے سے چھوڑدیتے ہیں اور شاید ہمارے عام نوجونوں کا اَنداز یہ نہ ہو لیکن ایک ذمّہ داری قیادت کی بھی ہوتی ہے کہ وہ اِس حوالے سوچتی ہے کہ میں نے اُمت کو مشکل سے کیسے بچاناہے، تکلیفوں اورمصیبتوں سے کیسے بچاناہے، امتحان سے کیسے بچاناہے؟ امتحان کودعوت دینااچھی بات نہیں ہے۔ ہم امتحان کے حوالہ سے معترض ہیں اللہ کے سامنے یاالٰہی العالمین ہم امتحانوں کے قابل نہیں لہٰذا اپناعجز اللہ کے سامنے پیش کرناچاہیے اورپھراُس کی مددمانگنی چاہیے اور اگر ہم تکبر میں آگئے کہ ہم بڑے طاقتور ہیں آکر دیکھ لیں تو اللہ کہے گاچلو کرو، پھر کیاکروگے؟ ہم بڑی اکثریت میں ہیں پھر اکثریت کا بھی پتہ چل جائے گا اِذَْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْْ ۔ تواگرایسے اِمتحانات اِس قسم کے اِحساسات کے ساتھ صحابہ کرام کی جماعت پرآسکتے ہیں توہم اور آپ کون ہوتے ہیں کس کھاتے میں ہیں ہم اورآپ لوگ؟ غلطیاں لغزشیں اگر صحابہ کرام سے ہوئی ہیں تواللہ نے جھنجھوڑاہے اُن کوتوہم سے کیوں نہیں ہوں گی؟ لَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعْدَہ اِذْ تَحُسُّوْنَہُمْ بِاِذْنِہ حَتّٰی اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَآاَرَکُمْ مَّاتُحِبُّوْنَ مِنْکُمْ مَنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا یہ صحابہ کرام سے خطاب ہے تم سے بعدمیںہے مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَةِ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْھُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ مخلص لوگ تھے اِحساس ہوگیافورًا وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ وَاللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ o توہم کون ہوتے ہیں جواپنامحاسبہ نہیں کریں گے، اُن پر تو اللہ کی مہربانی تھی کہ براہِ راست وحی اُن پر اُترتی تھی ہمارے لیے تو وحی بھی نہیں ہے اُسی وحی پرگزاراکررہے ہیں اور وحی کابدل ہے ہمارے پاس وہ ہے مشورہ وَشَاوِرْ ُھْم ِفی الْاَمْرِ اَب مشورہ کون کرے؟ اَب آپ لوگ توہیں آزادلوگ وَاِذَا جَآ ئَ ھُمْ اَمْر مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَضَاعُوْا بِہ وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلٰی اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہ مِنْہُمْ ٹھیک ہے کہ نہیں؟ تویہ جو امن اورخوف کی کوئی خبرایک دفعہ آجائے بس پھر اُڑانا طالبعلموں کا کام ہے جدھر چاہیں وہ رُخ اُس