ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2008 |
اكستان |
|
اِس میں بھی وہ روایات کی سندپرنظررکھتے ہیں اوریہ اُن کی فطرت میں داخل ہوتاہے کہ وہ ہربات کی سند اور سند کی قوت جانچتے رہتے ہیں اوراقوی سندًا اختیار کرتے ہیں۔ جناب نے لکھا ہے : ''ہم قرآن اور رسول پر ایمان کے مکلف ہیں رجال کتب پر ایمان ضروری نہیںاور نہ ہم سے قیامت کے دن اِس کی بازپرس ہوگی۔'' ٭ اِس کے بارے میں یہ ہی عرض کرسکتا ہوں کہ بازپرس تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے بارے میں بھی نہیں ہوگی اور کتب رجال کا استخفاف اگر جناب کی تحریر سے کسی کے ذہن میں بیٹھ جائے تو کتنا برا ہوگا؟ صحیح حسن ضعیف موضوع کا فیصلہ کتب رجال کے علاوہ اور کس ذریعہ سے کیا جاسکتا ہے؟ حدیث پر دین کی تفاصیل کا مدار ہے اور حدیث کا مدار رجال پر ہے۔ اگر کتب رجال کو بے وقعت کردیا جائے تو اِرشاد فرمائیں کہ اِن کا بدل کیا ہے جس سے آپ کسی بھی حدیث کو جانچ سکیں؟ جناب نے تحریر فرمایا ہے : '' پھر ایسی روایات یعنی احکام کی صرف زہری سے ہی منقول نہیں ہیں بلکہ اور حضرات بھی اِن روایات کے راوی ہیں اِس لیے اِن کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔'' ٭ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی چھ سال کی عمر میں شادی اور نو سال کی عمر میں رُخصتی کی روایت محض تاریخی نہیں ہے کیونکہ اِسی سے مسائل استنباط کیے گئے ہیں۔نیزیہ روایت فقط زہری ہی سے منقول نہیںبلکہ دُوسرے راوی بھی روایت کرتے ہیں اوراِسے ائمہ فقہ نے بھی قبول کیاہے اوراِس سے استدلال فرمایاہے۔ جناب نے تحریرفرمایاہے کہ : '' وضع حدیث کی سب سے خطرناک قسم اَدراج ہے۔ '' ٭ یہ بات اصول ِحدیث کے خلاف ہے۔ مُدرج کووضّاعِ حدیث کہیں نہیں کہاگیا۔ وضّاعِ حدیث کی حدیث نہیں لی جاتی جہاں کہیں ایساشخص آجاتاہے اُس کی روایت کوموضوع کہہ کر فوراً چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ اورعبدالملک ابن جریح جن کی روایات میں بکثرت اَدراج پایاگیاہے ثقات اَعلام میں شمارہوئے ہیں اوررجال بخاری میں ہیں۔ عبدالرزاق رحمة اللہ علیہ کی روایت لُعَبُھَا مَعَھَا بالکل دُوسری سند سے بھی موجودہے یعنی خود