ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2008 |
اكستان |
|
داڑھی کے وہ بال ہیں جوظاہرہیں (برخلاف جڑوں کے) .......اورصحیح یہ ہے کہ آدمی ظاہر داڑھی پرپانی بہائے ا یسے ہی مجتبیٰ میں ہے۔ اوراِس میں یہ بھی ہے کہ داڑھی نکلنے سے پہلے پورے چہرے کودھونافرض ہے اورجب داڑھی نکل آئے توداڑھی کے نیچے کھال کودھوناساقط ہوجاتاہے۔........... اورشرح الاصل میں شمس الائمہ حلوائی رحمہ اللہ نے وہ بات ذکرکی جواِتفاق پردلیل ہے یعنی اُنہوں نے کہاکہ جب داڑھی خفیف ہوکہ بالوں کے نیچے کی کھال نظرآتی ہوتوکھال تک پانی بہانافرض ہے اوراگرکھال نظرنہ آتی ہوتواُس تک پانی بہاناساقط ہوجاتاہے..........اوررضی الدین سرخسی رحمہ اللہ کی محیط میں ہے کہ امام محمدرحمہ ا للہ نے الاصل میںاِس طرف اشارہ کیاکہ داڑھی کے تمام بالوں کادھوناواجب ہے کیونکہ اُنہوں نے فرمایاوضو کی جگہ داڑھی کے بال ہیں جو ظاہر ہوں اورداڑھی کے تمام بال ظاہرہیں اوریہی اصل ہے کیونکہ بال اب کھال کے قائم مقام ہیں۔ توکھال سے متعلق فرض بالوں کی طرف منتقل ہوگیاجیساکہ بھووں میںحکم ہے۔ سعایہ میں ہے :اَلتَّخْلِیْلُ ، جَعْلُ الشَّیْئِ فِیْ خِلَلِ الشَّیْئِ خَلَّلَ الرَّجُلُ لِحْیَتَہ ، اَوْصَلَ الْمَائَ اِلٰی خِلَالِھَا وَھُوَ الْبَشَرَةُ الَّتِیْ مِنَ الشَّعْرَاتِ ۔ خلال کرنے کامطلب ہے ایک شے کے اَندردُوسری شے داخل کرنااور''آدمی نے اپنی داڑھی کا خلال کیا'' کامطلب ہے اُس نے داڑھی کے اندرجوکہ داڑھی کے بالوں کے درمیان کی کھال ہے اُس تک پانی پہنچایا۔ بنایہ میں ہے : وَقِیْلَ ھُوَ(اَیْ تَخْلِیْلُ اللِّحْیَةِ) سُنَّة عِنْدَ اَبِیْ یُوسُفَ جَائِز عِنْدَ اَبِیْ حَنِیْفَةَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ ۔ اورکہاگیا ہے کہ داڑھی کاخلال امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک سنت ہے جبکہ امام ابوحنیفہ اورامام محمدرحمہم اللہ کے نزدیک جائزہے۔