ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2006 |
اكستان |
|
ہوئے کیا نتیجہ ملا، وہی مجھ کو ملے گا یعنی بیت السلطان سے قرب اور بیت اللہ سے بعد۔ البتہ آپ ان کی تعریف کرتے ہیں کہ بڑے عادل ہیں اور وَارد ہوا ہے کہ سلطانِ عادل کی دُعاء قبول ہوتی ہے۔ سو اگر آپ سے ہوسکے آپ اُن سے میرے لیے دُعاء کرادیجئے۔ مگر بادشاہ سے یہ کہنا کہ ایک درویش کے لیے دُعاء کرو ۔یہ (عرفًا) آدابِ سلطنت کے خلاف ہے اس لیے میں آپ کو اِس کا ایک طریقہ بتلائوں وہ یہ کہ آپ میرا اُن سے سلام کہہ دیں وہ جواب میں وعلیکم السلام ضرور ہی کہیں گے۔ بس میرے لیے اس طرح دُعاء ہوجائے گی۔''(قصص الاکابر ص ٨٣) (٣) مظلوم کی دُعاء : اللہ تعالیٰ کو ظلم کسی درجہ میں بھی پسند نہیں ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ظلم کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : '' یَاعِبَادِیْ اِنِّیْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِیْ وَجَعَلْتُہ بَیْنَکُمْ مُّحَرَّمًا فَلا تُظَالِمُوْا '' (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی ج ١٣ ص ٢٢٤ زیر آیت اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُظْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ) اے میرے بندو میں نے اپنے اُوپر ظلم کو حرام کرلیا ہے اور تمہارے درمیان بھی (ایک دوسرے پر) ظلم کرنے کو حرام قرار دیا ہے، لہٰذا تم آپس میں ظلم نہ کیا کرو۔ ایک حدیث پاک میں آتا ہے حضور اکرم ۖ نے فرمایا : '' اِتَّقُوا الظُّلْمَ فَاِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَات یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ ''۔ (مسلم بحوالہ مشکٰوة ص ١٦٤ ) ظلم سے بچو کیونکہ قیامت کے دن ظلم اندھیروں کی شکل میں ہوگا۔ یعنی جیسے نیک لوگوں کی نیکیاں اُن کے لیے نور و روشنی کا سبب ہوں گی اسی طرح ظالم لوگوں کے ظلم اُن کے لیے اندھیروں اور تاریکیوں کا سبب ہوں گے جن میں وہ بھٹکتے پھریں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اندھیروں سے قیامت کے دن کی ہولناکیاں اور سختیاں مراد ہوں اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ایک ظلم قیامت کی بہت سی ہولناکیوں اور سختیوں کا باعث ہوگا۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور اکرم ۖ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جس