ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2006 |
اكستان |
|
ہوتا تھا، وہ تو اِس دوسری لڑائی کے بعد ہی ختم ہوگئی، اُس نے اِن کو تو تباہ کرہی دیا وہ خود بھی تباہ ہوگیا۔ رُوس کے لوگ بھی ڈھائی کروڑ کے قریب مارے گئے، بہت بڑی زبردست تباہی ہوئی حالانکہ رُوس بعد میں شامل ہوا ہے لڑائی میں۔ تو چار پانچ دن اور ایک ہفتہ میں ایک مُلک فتح کرلیتا تھا، یہ رفتار اُس کی رہی، اُس نے قوت ِبیانیہ اور ذہن سازی سے کام لیا۔ تو بیان سے ذہن سازی ہوجاتی ہے، ذہن سازی سے پھر آدمی سب کچھ قربان کربیٹھتا ہے، اپنی جان اور سب کچھ۔ تو جو رسول اللہ ۖ کی فصاحت و بلاغت قرآنِ پاک کی آیات یہ دوسرے تک پہنچتی تھیں لہٰذا وہ جانتے تھے، تو چیدہ لوگ ہی آتے تھے۔ رسول اللہ ۖ کے پسندیدہ خطیب اور شاعر : اب اُن کے جواب کے لیے جو رسول اللہ ۖ نے پسند فرمائے تھے وہ دو حضرات ہوگئے۔ ایک یہ ثابت بن قیس ابن شماس یہ انصاری ہیں اور ایک حضرت حسان ابن ثابت انصاری (رضی اللہ عنہما) یہ دو حضرات تھے۔ یہ شعر و شاعری میں اور یہ خطاب میں۔ تو یہ مسیلمہ کذاب جب آیا ہے اور اُس نے آکر گفتگو کی اور اِس گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ ایسے کرلیجئے کہ ہم اور آپ سلطنت آپس میں بانٹے لیتے ہیں۔ تو رسول اللہ ۖ تو اللہ کے سچے رسول تھے، سلطنت وغیرہ مقصود نہیں تھی بلکہ خدا کا پیغام پہنچانا اور لوگوں کو عمل کی طرف لانا اصل کام تھا۔ وہ آیا حکومت کے خیال میں، اِسی خیال سے اُس نے دعویٰ بھی کیا تھا نبوت کا کہ یہ کھانے پینے اور حکومت کرنے کاسلسلہ بن جائے گا، اِس نے یہی ڈھنگ اختیار کرلیا۔ مسیلمہ کے پاس جنات اور شیاطین آتے تھے : کچھ اُس کے پاس جن وِن آتے تھے یا شیطان آتے تھے، ہمزاد آتے تھے۔ اُن سے وہ خبریں لے لیتا تھا، بتادیتا تھا(جیسے مرزا قادیانی کے پاس خود اُس کے بقول ''ٹی چی، ٹی چی'' نامی شیطان آتا تھا) لیکن جب اُس کی موت کا وقت آیا تو پھر وہ نہیں آیا۔ کیا خبر لایا کیا خبر لایا لوگ اُس سے پوچھتے تھے، لیکن وہ نہیں لایا خبر۔ اُس نے کہا کوئی نہیں خبر آرہی اب۔ خبر ہی نہیں آرہی، یہ نہیں آرہا وہ نہیں آرہا۔ وہ اُس کے مؤکلات تھے