ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2006 |
اكستان |
|
قت یمن کا گورنر بناکر بھیجا اُس وقت خاص طور پر یہ وصیت فرمائی کہ '' وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُوْمِ فَاِنَّہُ لَیْسَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَاب'' (بخاری و مسلم بحوالہ مشکٰوة ص ١٥٥) مظلوم کی بددُعاء سے بچنا کیونکہ مظلوم کی بددُعاء اور اللہ تعالیٰ (کی جانب سے اِس بددُعاء کی قبولیت) کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ ایک شاعر کہتا ہے بترس از آہِ مظلوماں کہ ہنگامِ دُعا کردن اجابت از درِ حق بہر استقبال می آید یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ جس طرح خود ظلم کرنا جائز نہیں اسی طرح ظالم کا ساتھ دینا بھی جائز نہیں۔ چنانچہ حضور اکرم ۖ اِرشاد فرماتے ہیں : '' مَنْ مَّشٰی مَعَ ظَالِمٍ لِّیُقَوِّیَہ وَھُوَ یَعْلَمُ اَنَّہ ظَالِم فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْاِسْلَامِ '' (شعب الایمان للبیہقی بحوالہ مشکٰوة ص ٤٣٦) جو شخص ظالم کو تقویب پہنچانے کے لیے اُس کے ساتھ چلا اور اُسے یہ پتہ ہے کہ یہ شخص ظالم ہے تو یقینا وہ اسلام سے نکل گیا۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ ۔ (٤) مسافر کی دُعاء : شارحین حدیث کا کہنا ہے کہ مسافر دورانِ سفر قابل ترس ہوتا ہے اس لیے اس کے ساتھ حسن سلوک کرکے اُس کی دُعاء لینی چاہیے کہ اُس کی دُعاء بارگاہِ خداوندی میں قبول ہے اور مسافر سے بدسلوکی کا معاملہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بدسلوکی کی وجہ سے اگر اُس نے بددُعاء کی تو وہ بھی قبول ہوگی۔ (٥) والد کی دُعاء اولاد کے لیے : حدیث پاک میں گو والد کی دُعاء کا ذکر ہے لیکن اس میں والدہ کی دُعاء بھی شامل ہے اور دونوں کی دُعائیں اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کے حق میں دُنیا و آخرت کی بھلائی کی دُعاء کیا کریں، اور اولاد کو چاہیے کہ والدین کی دعائیں لیا کریں۔