ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2006 |
اكستان |
|
مسیلمہ کے قاتل : مارنے والے ''حضرت وحشی'' تھے۔ جنہوں نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔ وہ کہنے لگے کہ میرے دل میں آیا کہ کفر کے زمانے میں میں نے بہت بڑا گناہ کیا اور اب اسلام میں میں اُس کی تلافی کروں۔ فتح مکہ کے موقع پر یہ آئے اور ملے رسول اللہ ۖ سے۔ اور آئے اس طرح کہ طائف والوں کی طرف سے کوئی پیغام لے کر آنے والا جو وفد تھا اُس میں یہ شامل ہوگئے۔ انہیں یہ معلوم ہوا تھا کہ رسول اللہ ۖ کا یہ اُصول ہے کہ جو آدمی وفد میں آئے اُس کو آپ کوئی سرزنش نہیں کرتے کہ اُسے پکڑلیں، اُسے ماردیں، اُسے سزا دیں۔ یہ نہیں ہوگا بلکہ وفد کے لیے راستہ کھلا ہے۔ اسی طرح سفید جھنڈی لے کر کوئی آجائے لڑائی کے میدان میں بھی تو رُکنا پڑتا ہے یہ اُصول ہیں ،گویا اُس زمانے میں بھی ہوں گے ایسے اُصول۔ بہرحال اسلام نے تو خاص طور پر یہ رکھے ہیں۔ غیر مسلم شروع سے بدعہد ہیں : غیر مسلم ایسی حرکتیں کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ۖ کا جو فرستادہ پہنچاتھا رستم وغیرہ کے پاس تو اُس نے بدتمیزی کی اُس کے ساتھ۔ اور جو آتے تھے فرستادہ اُنہیں مروابھی دیتے تھے۔ رسول اللہ ۖ نے اُس دستور کو بالکل ختم کردیا بلکہ جو کوئی پیغام لے کر آرہا ہو اُسے کچھ نہیں کہتے۔ چنانچہ یہ وحشی آپ ۖ کی خدمت میں آئے، آپ نے اُن کو دیکھا تو آپ ۖ کو تکلیف ہوئی حضرت حمزہ کی وجہ سے۔ آپ ۖ نے اِن سے فرمایا کیا تم ایسا کرسکتے ہو کہ میرے سامنے نہ آیا کرو تو یہ چلے گئے اور سامنے نہیں آتے تھے تو اپنے اس گناہ کی تلافی اُنہوں نے اس طرح کی کہ جھوٹے نبی کو قتل کرکے جہنم رسید کیا اور یوں وہ اپنے برے انجام کو پہنچا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اِن حضرات کی محبت اور آخرت میں ان کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین۔