ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2006 |
اكستان |
|
٭ بارگاہ ِنبوت میں جس کسی قصوروارکا قصور اخلاق ِکریمانہ سے معاف ہوجاتا تواُس کی معافی کی علامت میں اپنا عمامہ مبارک اُس کے پاس بھیج دیتے ۔ ٭ خاص مہمانوں کی مہمانی بنفس ِنفیس خودانجام دیتے ۔ ٭ کھانے کی چیز کبھی تنہاتناول نہیںفرماتے بلکہ حاضرین کو شریک کرتے اورغیرحاضر کاحصہ رکھتے ٭ جب آپ ۖ راستے میں کسی کاہاتھ پکڑتے اورپھرجداہوتے توفرماتے اَللّٰہُمَّ اٰتِنَا فِی الدُّ نْیَاحَسَنَةً وَّقِناَعَذَابَ النَّارِ ۔ ٭ کسی کاقرض ادافرماتے تویہ دعادیتے باَرَکَ اللّٰہُ لَکَ فِیْ اَھْلِکَ وَمَالِِکَ اِنَّمَا جَزَا ئُ السَّلَفِ اَلْحَمْدُ وَا لْاَدَائُ ۔ ٭ کسی وقت کسی انسان کو اُس کی کسی نشانی سے پکارتے ۔ایک مرتبہ ایک شخص جوتا پہن کرقبروں پرپھر رہاتھا توآپ ۖنے اُس کومنع فرمایااورفرمایا ''اوجوتی والے جوتی اُتار'' ۔ ٭ کسی شخص کواگر اتفاقاًآپ ۖکے ہاتھ سے کوئی تکلیف پہنچ جاتی توآپ ۖ تکلیف زدہ کوبدلہ لینے کاحق دیتے اورکبھی اُس تکلیف کے عوض میںاُس کوکوئی چیزعنایت فرماتے ۔ بقیہ : عورتوں کے عیوب اور امراض اس لیے جس پر ملنے جلنے کا ایسا اثر پڑتا ہو اُس کو یہی حکم دیا جائے گا کہ وہ کسی سے نہ ملے اور اگر ملے تو غریب نادار عورتوں سے ملے۔ کیونکہ غریبوں سے مل کر تمہارا جی خوش ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا شکر اداکروگی کہ الحمد للہ میں بہت سی عورتوں سے اچھی حالت میں ہوں اور یہی نکتہ ہے اِس حدیث میں بلکہ یہ واضح دلیل ہے مذکورہ بالا تفصیل کی کہ حضور ۖ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا یَا عَائِشَةُ قَرِّبِی الْمَسَاکِیْنَ وَجَالِسِیْھِمْ ۔ ترجمہ :'' اے عائشہ مسکینوں کے پاس بیٹھا کرو اور اُن کو اپنے نزدیک کیا کرو''۔ مسکینوں (غریبوں) کے پاس بیٹھنے سے خدا کی نعمتوں کی قدر ہوتی ہے اور دل خوش رہتا ہے۔ (الکمال فی الدین)