ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2006 |
اكستان |
|
عربوں کا ذوق فصاحت وبلاغت : تو جب کہیں باہر سے کوئی وفد آتا تھا تو عربوں کا بڑا ذوق تھا فصاحت و بلاغت کا۔ کہ زبان عمدہ ہونی چاہیے اور بہت ہی ذوق تھا اَشعار کا۔ شاعر بھی بہت تھے اور بہت اچھے اچھے شعر کہنے والے تھے۔ ایک سالانہ مشاعرہ ہوتا تھا حج کے موقع پر اُس میں وہ طے کرتے تھے جیسے ایک بورڈ بڑے بڑے فصحاء وبلغاء کا طے کرتا ہو۔ وہ یہ طے کرتے تھے کہ کس کا قصیدہ اول درجہ کا ہے تو اُس کو پھر وہ کعبة اللہ کے دروازے پر لٹکادیتے تھے سال بھر کے لیے۔ اب اگلے سال پھر کوئی مشاعرہ ہوتا اسی طرح تو جس کا اول آتا قصیدہ اُس کو پھر لٹکادیتے تھے۔ اس طرح سے سات معلقے تھے وہ مشہور تھے۔ یہ ''معلقات ِسبعہ'' مدارس میںپڑھائے بھی جاتے ہیں، اب تک چلے آرہے ہیں۔ ''عشرہ معلقات'' بھی ہیں، دس معلقے بھی کہے گئے ہیں، وہ بھی ہیں موجود۔ تو خاص ذوق تھا اُن کا، اشعار کا فصاحت و بلاغت کا، مدلل گفتگو کا، معقول گفتگو کا جوکہ بے معنی نہ ہو۔ اب یہ ذوق جب قومی حیثیت اختیار کرلے تو پھر سارے ہی لوگ جوبے پڑھے لکھے ہوتے ہیں وہ بھی اچھی خاصی بات کرنی جان جاتے ہیں۔ یہ اَحرار کا جو زمانہ تھا، احرار میں بہت تقریر کرنے والے لوگ تھے تو وہ کہتے تھے کہ احرار کا جو چپڑاسی ہے وہ بھی اچھی خاصی تقریر کرسکتا ہے کیونکہ دن رات اُس کا بیٹھنا اُٹھنا ایسے لوگوں کے ساتھ ہوجاتا تھا کہ جن کی زبان میں تقریریں اور گفتگو آپس میں بڑی اچھی ہوتی تھی، تو وہ علمی لطیفے یا قصے وغیرہ بیان کردیتا تھا تو وہ تقریر بھی کرسکتا تھا۔ تو پورے عرب کا ایک ماحول ایسا بنا ہوا تھا اورشاعروں سے وہ بڑے ڈرتے تھے(جیسے آج کل زردصحافت سے شریف آدمی ڈرتا ہے) کہ کوئی شاعر اگر کسی کی برائی میں شعر کہہ دے وہ چل پڑے گا اور بھلائی میں کہہ دے وہ چل پڑے گا۔ اچھا اب اِس میں حافظے کی بھی ایک مشق ہوجاتی ہے کہ ایک شعر سنا وہ یاد کرلیا (دوسرا) سنا وہ یاد کرلیا تو قوت ِحافظہ کو عادت ہوجاتی ہے ذہن کو کہ وہ رکھے یاد۔ عربوں کا قوی حافظہ اور اُس کی وجہ ، بدن ہلکا اور اُس کی وجہ : تو اُن کا حافظہ کچھ تو قدرتی بڑا اچھا، آب و ہوا بہت اچھی، وہاں کی خشک آب و ہوا ہے۔ خشک آب و ہوا