ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2006 |
اكستان |
ور وہ باطل پر۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا تم نے عمرہ کے احرام کا جو مشورہ دیا ہے اس کے بعد ہمارے خون اُن پر حرام ہوجائیں گے۔ تو وہ ہمیں اب اوراحرام کی حالت میں اور احرام کھولنے کے بعد ہر حال میں گمراہ سمجھ رہے ہیں۔ اور شام جانے کا جو مشورہ دیا ہے تو مجھے شرم آتی ہے کہ میں اِن لوگوں سے ڈر کر نکلوں (پھر) مجھے اہل شام ایسی نظروں سے دیکھیں اور کافر دشمن تک یہ بات پہنچے۔ تیسری بات یہ کہ ہم اِن سے لڑیں (تو میں یہ بھی نہ کروں گا) مجھے اُمید ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے پاس اس طرح حاضر ہوں گا کہ میری وجہ سے ایک چُلُّو( سینگی بھر )بھی خون نہ بہے۔ سہم نے واقعہ ذکرکرتے ہوئے کہا : ایک دن ہم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز فجر ادا کی۔ جب فارغ ہوئے تو آپ نے لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا، آج رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس ابوبکر و عمر آئے (رضی اللہ عنہما) انہوں نے مجھ سے کہا کہ عثمان روزہ رکھ لو کیونکہ تمہیں ہمارے پاس روزہ کھولنا ہے۔ میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میں (نے روزہ کی نیت کرلی ہے اور ) روزہ سے ہوں اور میں ہر اُس شخص کو جو خدا اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو، قسم دیتا ہوں کہ وہ گھر سے اس طرح نکل جائے کہ وہ خود بھی سالم رہے اور دوسرا مدمقابل بھی اُس کے ہاتھ سے سالم رہے۔ ہم نے عرض کیا کہ اگر ہم نکل بھی گئے تو بھی ہم ان سے اپنے بارے میں مطمئن نہ ہوں گے (کہ ہم محفوظ ہیں) تو آپ نے ہمیں اجازت دی کہ ہم مکان کے ایک کمرے میں رہیں، ہمارے ساتھی یکجا رہیں اور ہمارا تحفظ رہے۔ پھر آپ نے مکان کا دروازہ کھول دینے کا حکم دیا، قرآن پاک منگایا اُس پر آپ نے اپنے آپ کو جھکالیا، اُس وقت آپ کے پاس آپ کے دو بیویاں تھیں، بنت الفرافصہ اور ابنة شیبہ اس کے بعد سب سے پہلے جو شخص آیا وہ محمد بن ابی بکر تھا۔ اُس نے آپ کی مبارک ڈاڑھی پکڑی۔ تو آپ نے فرمایا بھتیجے اِسے چھوڑ دے ، خدا کی قسم تمہارے والد تو اِس کے لیے اس سے بھی کم پر بے چین و بے تاب ہوجاتے تھے۔ وہ اس جملہ پر شرماکر باہر نکل گیا اور ان لوگوں سے کہا میں نے تمہاری خاطر اِنہیں بدنما کردیا ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ریش مبارک کے جو بال گرگئے تھے وہ اکٹھے کرلیے اور اپنی ایک اہلیہ کو