ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2006 |
اكستان |
|
رُخ کیا وہ لُوٹا۔ اِن ظالموں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا سر مبارک کاٹنا چاہا۔ عورتیں روکنے لگیں، ابن عُدَیْس نے کہا، انہیں چھوڑو۔ اور کہا جاتا ہے کہ جس شخص نے شہید کیا (اس کا نام) کنانة بن بشر التجیبی تھا اور عمرو بن الحمق نے متعدد دفعہ نیزے مارے۔ عمیر بن ضابئی آیا، اس کے باپ کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جیل میں انتقال ہوگیا تھا۔ وہ آپ کے اُوپر کھڑے ہوکر کودا، حتی کہ آپ کی ایک پسلی توڑدی۔ (العیاذ باللّٰہ) یہاں ابن عُدَیْس رضی اللہ عنہ کا نام بھی آیا ہے، یہ اصحاب بیعت رضوان میں ہیں ۔اور عمرو بن حمق بھی صحابی ہیں۔ صَحَابِیّ سَکَنَ الْکُوْفَةَ ثُمَّ مِصْرَ قُتِلَ فِیْ خِلَافَةِ مُعَاوِیَةَ۔ ( تقریب التہذیب) صحابی ہیں، کوفہ میں رہے پھر مصر میں رہے حضرت معاویہ کے دَورِ خلافت میں قتل کردیئے گئے۔ کوئی بھی صحابی شہید کرنے میں شریک نہ تھا، بعد میں یافوراً بعد ہی جبکہ اتنا عظیم حادثہ ہوا ہو جس نے بھی سنا ہوگا پہنچا ہوگا۔ جب حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ نے سھم بن خنش ازدی کو دوبارہ'' دیر سمعان'' کا حاکم بنایا تو اُنہوں نے ان سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا حال معلوم کیا۔ کیونکہ دارِ عثمان میں وقت ِوقوع موجود تھے۔ ابن عساکر نے یہ واقعہ بالتفصیل لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے : ''وفد سبائیہ ''جو مصر کا وفد تھا حضرت عثمان کے پاس آئے ، اُنہوں نے اِن کی باتیں مان لیں، انہیں خوش کردیا، وہ واپس روانہ ہوگئے (لیکن وہ) پھر مدینہ شریف واپس آگئے۔ جس وقت یہ لوگ واپس آئے ہیں تو حضرت عثمان صبح یا ظہر کی نماز کے لیے گھر سے باہرتشریف لائے تو اُن لوگوں نے آپ پر کنکریاں جوتے اور موزے پھینکے ،آپ گھر واپس تشریف لے گئے۔ آپ کے ساتھ ابوہریرہ حضرت زبیر اُن کے صاحبزادے عبداللہ، حضرت طلحہ( رضی اللہ عنہم ) مروان اور مغیرة بن الاخنس اور دیگر حضرات ساتھ ہولیے۔ مصریوں کے اس وفد نے آپ کے مکان کا گھیرا ڈال لیا۔ حضرت عثمان نے لوگوں سے مشورہ کیا تو عبد اللہ بن زبیر نے عرض کیا اے امیر المؤمنین میں تین باتیں عرض کرتا ہوں، ان میں سے کوئی ایک اختیار کرلیجئے۔ یا تو آپ عمرہ کا احرام باندھ لیجئے تو اُن پر ہمارے خون حرام ہوجائیں گے یا ہم آپ کے ساتھ سوار ہوکر شام چلے چلیں یا ہم ان کے مقابلہ میں نکل کر تلوار چلائیں حتی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اوراُن کے درمیان فیصلہ فرمادے کیونکہ ہم حق پر ہیں