ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2006 |
اكستان |
|
پھر سودان بن حُمران تلوار لیکر آگے بڑھا۔ حضرت نائلہ آڑے آئیں، اُس نے اِن کی اُنگلیاں کاٹ دیں، وہ مڑکر پیچھے ہٹیں تو اُس (خبیث) نے اِن کے سرین پر ہاتھ مارا اور بکواس کی۔ اس نے حضرت عثمان پر وار کرکے اُنہیں شہید کردیا۔اتنے میں حضرت عثمان کا ایک غلام آیا، اس نے سودان پر حملہ کیا اور اُسے قتل (کرکے جہنم رسید) کیا۔ اُس غلام پر اِن باغیوں میں سے ایک شخص جس کا نام '' قترہ ''تھا، حملہ کرکے شہید کردیا۔ جب یہ لوگ گھر کے صحن تک پہنچے تو سیدنا عثمان کے ایک اور غلام نے قترہ پر حملہ کرکے اِسے ماردیا۔ ان لوگوں کے جو چیز ہاتھ گی وہ بھی لُوٹنے لگے، ایک شخص جسے کلثوم التجیبی کہا جاتا تھا اُس نے حضرت نائلہ کی (جو زخمی حالت میں تھیں) چادر چھینی، اِسے بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ایک غلام نے مارڈالا، اور یہ غلام بھی شہید کردیا گیا۔ (البدایہ ص ١٨٨۔ ١٨٩ ج٧ ) جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا جنازہ گھر سے نکالاگیا، اُس کے بعد اِن دونوں کا جنازہ بھی نکالا گیا جو گھر میں شہید کیے گئے تھے، ان کے نام صبیح اور نجیح تھا، انہیں بھی حضرت عثمان کے پہلو میں ''حش کوکب'' ہی میں دفن کیا گیا۔ ( البدایہ ص ١٩١) ایک مصری شخص آیا، یہ'' کِنْدِی ''تھا، اُس کا لقب حمار (گدھا) تھا، کنیت ابورومان تھی۔ قتادہ نے بتلایا کہ اُس کا نام رومان تھا اور حضرات نے کہا ہے کَانَ اَزْرَقَ نیلگوں آنکھوں والا اَشْقَرَ سرخ سپید یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا نام سودان بن رومان تھا اور وہ مرادی تھا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں : کَانَ اسْمُ الَّذِیْ قَتَلَ عُثْمَانَ اَسْوَدُ بْنُ حُمْرَانَ ۔ (البدایہ ص ١٨٥) ''جس شخص نے حضرت عثمان کو شہید کیا اُس کا نام اسود بن حمران تھا''۔ ابن عون کہتے ہیں کہ آپکی پیشانی اور سر مبارک کے اگلے حصہ پر لوہے کے نوک دار سریہ سے کنانہ بن بشر نے حملہ کیا تھا، آپ اِسکے بعد پہلو پر گرگئے، پھر اَسود بن حمران المرادی نے شہید کردیا۔ (البدایہ ص ١٨٥) ابن خلدون کا بیان ہے : وَانْتَدَبَ رَجُل فَدَخَلَ عَلٰی عُثْمَانَ فِی الْبَیْتِ فَحَاوَرَہ فِی الْخَلْعِ فَاَبٰی فَخَرَجَ وَدَخَلَ اٰخَرُ ثُمَّ اٰخَرُ کُلُّھُمْ یَعِظُہ فَیَخْرُجُ وَیُفَارِقُ الْقَوْمَ وَجَآئَ ابْنُ