ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2006 |
اكستان |
|
الَا اِنَّ خَیْرَ النَّاسِ بَعْدَ ثَلٰثَةٍ قَتِیْلُ التَّجِیْبِی اَلَّذِیْ جََآئَ مِنْ مِّصْرَ تینوں حضرات کے بعد سب سے بہتر وہ شخص تھا جسے تجیبی نے جو مصر سے آیا تھا قتل کیا جب حج سے لوگ آئے تو دیکھا کہ حضرت عثمان شہید کردیے گئے اور لوگوں نے حضرت علی سے بیعت کرلی۔ (البدایہ ص ١٩٠ ج٧) اِسی روایت میں ہے کہ قاتل کنانة بن بشر بن عتاب التجیبی تھا۔ (البدایہ والنہایہ ص ١٨٩ ج٧) سب سے پہلے جو شخص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اُسے ''اَلْمَوْتُ الْاَسْوَدُ'' (سیاہ موت) کہا جاتا تھا۔ اُس نے آپ کا گلا گھونٹا جس سے آپ پر غشی کی کیفیت ہوگئی، سانس حلق میں اَٹکنے لگا، وہ چھوڑکر چلاگیا۔ وہ یہ سمجھا کہ اُس نے انہیں شہید کردیا ہے۔ محمد بن ابی بکر آیا اُس نے آپ کی ریش مبارک پکڑی (آپ نے اُسے غیرت دلائی) وہ نادم ہو کر باہر نکل گیا۔ پھر ایک اور شخص آیا اُس کے ہاتھ میں تلوار تھی، اُس نے تلوار سے آپ پر وار کیا، آپ نے ہاتھ سے وَار روکا، ہاتھ کٹ گیا۔ کچھ بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ہاتھ بالکل الگ ہوگیا، کچھ کہتے ہیں کہ کٹ گیا الگ نہیں ہوا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ وہ ہاتھ ہے جس نے سب سے پہلے قرآن پاک کی مفصل سورتیں لکھیں۔ آپ کے خون کا سب سے پہلا قطرہ اِس آیت پر گرا فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ o ''سو اب کافی ہے تیری طرف سے اُن کو اللہ اور وہی ہے سننے اور جاننے والا۔'' پھر ایک اور شخص تلوار ہلاتا ہوا آیا، (آپ کی زوجہ)حضرت نائلہ بنت الفرافصہ روکنے کے لیے آگے بڑھیں، اُس کی تلوار پکڑلی، اُس نے اِن کے ہاتھ میں سے تلوار اِس طرح کھینچی کہ اِن کی اُنگلیاں کاٹ دیں۔ پھر آگے بڑھ کر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بطن ِمبارک پر (جو ہاتھ کٹ جانے کی وجہ سے کمزوری سے لیٹ گئے ہوں گے) تلوار رکھی اور اپنا پورا بوجھ اُس پر ڈال دیا۔ اس واقعہ کی دوسری روایت اس طرح ہے کہ محمد بن ابی بکر کے جانے کے بعد غافقی بن حرب آگے بڑھا۔ اِس کے ہاتھ میں لوہے کی چیز تھی، وہ آپ کے دہن مبارک پر ماری، آپ کے سامنے جو قرآن پاک تھا اُس پر پائوں مارا جس سے مصحف ِعثمانی گھوم گیا وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہِ (مگر گھوم کر صحیح طرح) آپ کے سامنے ٹھہرگیا اور اِس پر (دہن مبارک) کا خون بہنے لگا۔