ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2006 |
اكستان |
|
َّاحِدَةً تَأْخُذُھُمْ وَھُمْ یَخِصِّمُوْنَo فَلَایَسْتَطِیْعُوْنَ تَوْصِیَةً وَّلَااِلٰی اَھْلِھِمْ یَرْجِعُوْنَo ''یہ تو رَاہ دیکھتے ہیں ایک چنگھاڑ کی جو اُن کو آپکڑے گی جب آپس میں جھگڑرہے ہوں گے پھر نہ کرسکیں گے کہ کچھ کہہ ہی مریں اور نہ اپنے گھر کو پھر کر جاسکیں۔'' حضرت علی نے یہ خبر سنی تو حضرت عثمان کے لیے دُعاء رحمت ِباری کرتے رہے۔ انہیں خبر ملی کہ جنہوں نے شہید کیا ہے وہ نادم ہیں تو اُنہوں نے یہ آیت پڑھی : کَمَثَلِ الشَّیْطَانِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْ ٔ مِّنْکَ اِنِّی اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعَالَمِیْنَ o''جیسے قصہ شیطان کا جب کہے انسان کو تو منکر ہو پھر وہ منکر ہوگیا کہے میں الگ ہوں تجھ سے، میں ڈرتا ہوں اللہ سے جو رب ہے سارے جہان کا۔'' حضرت سعد کو اطلاع ملی تو اُنہوں نے حضرت عثمان کے لیے دُعاء رحمت و مغفرت کی۔جن لوگوں نے انہیں شہید کیا تھا، اُن کے بارے میں یہ آیت پڑھی : قُلْ ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاo اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًاo ''تو کہہ ہم بتائیں تم کو کن کا کیا ہوا گیا بہت اکارت، وہ لوگ جن کی کوشش بھٹکتی رہی دُنیا کی زندگی میں اور وہ سمجھتے رہے کہ خوب بناتے ہیں کام۔'' پھر اُنہوں نے قاتلین کو بددُعاء دی کہ خداوندا اِنہیں اور ندامت دِکھا( خوب پچھتائیں) اِن کی گرفت فرما۔ اَللّٰھُمَّ اَنْدِمْھُمْ وَخُذْ ھُمْ ۔ اَسلاف میں کچھ حضرات نے خدا کی قسم کھاکر بیان کیا ہے کہ اُن میں سے ہر ہر آدمی قتل ہی ہوا ہے۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ایسے ہونا چاہیے بھی تھا۔ اور اسباب کے علاوہ اس لیے بھی کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ مستجاب الدُّعاء تھے جیسا کہ حدیث ِصحیح میں آیا ہے۔ حضرت سعید بن زید نے فرمایا یہ جو تم نے حضرت عثمان کے ساتھ معاملہ کیا ہے یہ ایسا گناہ ہے کہ اس پر اگر اُحد پہاڑ پھٹ پڑے تو یہ درست ہو (ابن ابی شیبہ ص٩٨٨ ج ٤) ابوالعالیہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی حضرت عثمان کی لاش مبارک کے پاس پہنچے تو اُن کے اُوپر لپٹے رہے اور روتے رہے حَتّٰی ظَنُّوْا اَنَّہ سَیَلْحَقُ بِہ حتی کہ لوگوں کو خیال ہوا کہ یہ کہیں وفات نہ پاجائیں۔ منظور بن سیار الفزاری کی اہلیہ بیان کرتی ہیں ہم حج کے لیے گئے تھے، ہمیں شہادت عثمان کی خبر نہ تھی۔ جب ہم ''مرج ''مقام پر تھے تو رات کے وقت ایک شخص یہ شعر گاتا ہوا جارہا تھا