ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2006 |
اكستان |
|
اس عبارت کے ذریعے جونا گڑھی صاحب نے تمام مقلدین کو اتباع رسول کا منکر قرار دیا ہے۔ حالانکہ اتباع رسول کے بغیر ایمان نامکمل رہتا ہے۔ نیز آپ نے واضح طور پر حرمت تقلید کا فتویٰ دے دیا ہے۔ گویا تمام مقلدین ائمہ کرام کی تقلید کرکے حرام کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اِسی کتاب میں ایک جگہ مولانا یوں رقمطراز ہیں : ''الغرض جس طرح باپ دادوں کی تقلید موجب ِگمراہی ہے اسی طرح سادات بزرگوں کی اور اِسی طرح علماء کرام اور اللہ والوں کی بھی۔ وہ بزرگ گو حق پر ہوں اور راہ ِیافتہ ہوں لیکن اُن کی تقلید موجب ِضلالت رہے گی اِس لیے کہ وہ خود مقلد نہ تھے محقق تھے۔'' (طریق محمدی صفحہ ٢٦) اِسے کہتے ہیں تعصب اور ضد کی پٹی آنکھوں پر باندھ لینا۔ جبکہ قرآن پاک نیک لوگوں کی پیروی کا حکم دیتا ہے۔ اِرشاد باری تعالیٰ ہے ''وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ'' اُس شخص کے راستے کی پیروی کرو جو میری طرف رجوع کرنے والا ہے۔ سورة فاتحہ میں منعم علیہم کے راستہ پر چلنے کی دُعا مانگنے کا حکم ہے جن میں صالحین بھی شامل ہیں لیکن مولانا نے حق والے راہ یافتہ لوگوں کی اتباع کو بھی حرام قرار دے دیا ہے۔ دُعا ء ہے اللہ تعالیٰ ان کی آنکھوں سے تعصب کی پٹی اُتاردے۔ مولانا جونا گڑھی آگے چل کر یوں فرماتے ہیں : ''دوستو! اللہ کے رسول کی اس صاف پیشگوئی اور لوگوں کی قیاسی باتوں کی تقلید کی کھلی مذمت کے بعد بھی کوئی مسلمان ایسا ہے کہ تقلید کو گلے سے چمٹائے رکھے اور ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگائے اور پھر خوش رہے''۔ (طریق محمدی صفحہ ٣٠) اندازہ کیجیے کہ مولانا کے فرمان کے مطابق جو تقلید کرتا ہے وہ ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگاکر خوش رہتا ہے دوسرے لفظوں میں مقلد کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں، مولانا اسی کتاب کے صفحہ ٣٢ پر یوں گوہر اَفشانی کرتے ہیں : ''پھر جو شخص باوجود حدیث ِنبوی کے امام ابوحنیفہ اور امام شافعی، امام مالک، امام احمد کے اقوال کو نہ صرف تلاش کرے بلکہ اُن کا ماننا فرض و واجب سمجھے کیا وہ مسلمان رہ سکتا ہے؟'' اصل بات یہ ہے کہ غیر مقلدین کو حدیث اور سنت کے فرق کا علم نہیں ہے اس لیے کہ ایک باب میں اگر