ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2006 |
اكستان |
|
آپ ۖ کی مجلس میں حاضری کے وقت حضرت سلمان کی عمر ڈھائی سو سال تھی : تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ان سے بھی بہت بڑے ہیں کیونکہ جب وہ مدینہ منورہ میں پہنچے ہیں تو اِن کی عمر تقریباً ڈھائی سو سال تھی۔ وہ دین حق کی طلب اور جستجو میں سفر کررہے تھے کہ پھنس گئے۔ پتہ تو آسمانی کتابوں سے یہی چلتا رہا ہے کہ آخری نبی عرب میں ہوں گے۔ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ ہجرت کرنا اورنشانیاں اتنی زیادہ ہیں کہ قرآن پاک میں یہ علی الاعلان کہا گیا کہ اَلَّذِیْنَ آتَیْنَاھُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُوْنَہ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَھُمْ جنہیں ہم نے کتاب دے رکھی ہے جو اہل کتاب ہیں وہ جناب رسول اللہ ۖ کے خدا کے نبی ہونے کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے کوئی اپنے بیٹے کا بیٹا ہونا پہچانتا ہو ،تو سب سے قریبی رشتہ باپ بیٹے کا اولاد اور باپ کا، تو وہ جس طرح سے جانتا ہے اس طرح دوسرے بھی نہیں جانتے۔ تو اتنا اچھی طرح پہچانتے تھے لیکن اِس کے باوجود قرآن پاک میں فرمایا گیا وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنْھُمْ لَیَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ ان میں سے ایک ایسا طبقہ ہے جو جان بوجھ کر حق کو چھپاتا ہے تو حضرت سلمان کو پتا چلا ہوگا کہ آخری نبی آنے والے ہیں،اس لیے وہ عربوں کی طرف جارہے تھے لیکن اُس وقت تو عربوں کے رسم و رواج اور زندگی گزارنے کے طور طریقے بالکل عجیب تھے۔ جاہلیت کا دور جسے کہا جاتا ہے جس میں کوئی فرض شناسی نہیں کوئی بری بات بھی بری نہیں ،تو وہ یہ کرتے تھے کہ کسی کو بھی پکڑلیا اور جاکر بیچ دیا کہ یہ میرا غلام ہے میں بیچ رہا ہوں تو وہ خرید لیتا تھا پھر وہ غلام سے کام لیتا تھا نوکروں والا کام ذلت کے ساتھ ،نوکری تو ہوتی ہی ہے''اِجارہ'' جسے کہتے ہیں عربی میں، اُجرت پر کام کرنا۔ لیکن غلام ،غلام کے ساتھ تو ذِلت کے ساتھ سلوک کیا جاتا تھا۔ کپڑے بھی اُسے ایسے ہی کھانا بھی اُسے ایسے ہی رہنا سہنا بھی کوئی پرواہ نہیں ۔تو حضرت سلمان کا یہ ہوا کہ یہ زبردستی غلام بنالیے گئے اور پھنس گئے پھر دوسرے نے پھر تیسرے نے ،ہوتے ہوتے یہ دس سے بھی زیادہ لوگوں کے غلام رہے۔ جب جناب رسول اللہ ۖ مدینہ منورہ تشریف لائے ہیں تو اُس وقت جس (یہودی) کے یہ غلام تھے اُس نے یہ کہا اگر یہ کردوگے یہ کردوگے تو میں تمہیں آزاد کردوں گا۔اپنی قیمت دے دو وغیرہ وغیرہ، ایسی کڑی چیزیں اِن سے کہیں۔ نبی علیہ السلام کا غلاموں کے ساتھ حسن سلوک : جو شرائط لگائیں اُس نے وہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری کردیں۔ اُس کے بعد یہ آزاد ہوگئے اور انہوں نے اسلام فوراً ہی قبول کرلیا۔ یہ تو تھے ہی حق کی تلاش میں اور عمر کا بہت بڑا حصہ گزرچکا تھا۔