ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2006 |
اكستان |
|
س حدیثیں ہیں تو اُن میں سے جو اُن کے دل کو اچھی لگے خواہ جمہور اُمت کے تعامل کے خلاف ہو اُسے لے لیتے ہیں اور باقی تمام احادیث کی تضعیف وغیرہ کردیتے ہیں اور اُن پر عمل نہیں کرتے۔ جبکہ ہمارے امام صاحب باب کی تمام احادیث کو سامنے رکھ کر دیکھتے تھے کہ اُن میں سنت کونسی حدیث ہے پھر اُس حدیث پر عمل کرنے کا فتویٰ دیتے تھے۔ آپ نے چونکہ صحابہ کرام کی زیارت کی تھی، اُن سے روایات لی تھیں، اُنہیں نماز پڑھتے دیکھا تھا اس لیے مختلف احادیث میں سے سنت کا تلاش کرنا آپ کے لیے بہت آسان تھا۔ حضور اکرم ۖ نے کہیں نہیں فرمایا کہ میری حدیث پر عمل کرو، جہاں بھی فرمایا سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا، اس لیے ہر حدیث سنت نہیں۔ سنت وہ طریقہ ہے جسے صحابہ کرام نے مستقل طور پر اپنالیا۔ تمام کتب ِاحادیث میں یہ حدیث ہے کہ آپ نے کھڑے ہوکر پیشاب فرمایا لیکن یہ صرف حدیث ہے سنت نہیں، بلکہ سنت یہ ہے کہ بیٹھ کر پیشاب کیا جائے۔ حدیث میں ہے کہ آپ نے جوتے پہن کر نماز پڑھی یہ صرف حدیث ہے لیکن سنت یہ ہے کہ جوتے اُتارکر نماز پڑھی جائے۔ الغرض ان غیر مقلدوں کو اگر'' حدیث'' اور'' سنت'' کا فرق معلوم ہوجائے تو شاید بے عقلی کی باتیں چھوڑدیں۔ مولانا جونا گڑھی صاحب ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں : ''پس تقلید اَمر حق کے احقاق سے روکنے والی چیز ہے اور جو چیز انسان کو حق سے اور تحقیق ِحق سے روکے وہ خود غیر پسند، نامرضیہ اور باطل چیز ہے۔'' (طریق محمدی صفحہ ٣٩) بہرحال یہ عبارت بھی حسب سابق تقلید کے خلاف اُن کے حسد و بغض پر دلالت کرتی ہے۔ وہ اپنی چھوٹی سی جماعت کو حق پر اور باقی تمام مقلد مسلمانوں کو باطل پر سمجھتے ہیں لیکن ہمیں دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔ بقول شاعر وَاِذَا اَتَتْکَ مَذَمَّتِیْ مِنْ نَّاقِص فَھِیَ الشَّھَادَةُ لِیْ ِباَنِّیْ کَامِل یعنی جب کوئی غیر مقلد مقلدین کی برائی کرتا ہے تو یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ مقلدین کامل دین کے پیروکار ہیں۔ (جاری ہے )