ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2006 |
اكستان |
|
حضرت محمد بن مسلمہ کے شریک ِقتال نہ ہونے کی وجہ : حضرت محمد بن مسلمہ کا سبب وہ روایت تھی جس میں انہیں منع فرمایا گیا ہے : وَاَخْرَجَ الْحَاکِمُ عَنْ مُّحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ کَیْفَ اَصْنَعُ اِذَا اخْتَلَفَ الْمُصَلُّوْنَ قَالَ تَخْرُجُ بِسَیْفِکَ اِلَی الْحَرَّةِ فَتَضْرِبُھَا بِہ ثُمَّ تَدْخُلُ بَیْتَکَ حَتّٰی تَأْتِیَکَ مَنِیَّة قَاضِیَة اَوْ یَدخَاطِئَة ۔(ازالة الخفاء ج٢ص ٢٨٢) ''حضرت محمد بن مسلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ ۖ سے عرض کیا کہ جس دور میں اہل قبلہ میں اختلاف ہو، میں کیا کروں؟ اِرشاد فرمایا اپنی تلوار لے کر حرہ کی طرف نکل جانا اُسے پتھروں پر مارنا ( اورکند کردینا) پھر اپنے گھر میں رہنا حتی کہ یا طبعی موت آجائے یا کوئی خطاکار ہاتھ (تمہیں ماردے)۔'' حضرت ابوموسٰی اشعری کے شریک ِقتال نہ ہونے کی وجہ : وَاَخْرَجَ الْحَاکِمُ عَنْ اَبِیْ مُوْسَی الْاَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ بَیْنَ اَیْدِیْکُمْ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ یُصْبِحُ الرَّجُلُ فِیْھَا مُؤْمِنًا وَّیُمْسِیْ کَافِرًا وَیُمْسِیْ مُؤْمِنًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا اَلْقَاعِدُ فِیْھَا خَیْر مِّنَ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ فِیْھَا خَیْر مِّنَ الْمَاشِیْ وَالْمَاشِیْ فِیْھَا خَیْر مِّنَ السَّاعِیْ قَالُوْا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ کُوْنُوْا اَحْلَاسَ بُیُوْتِکُمْ۔ (ازالة الخفاء ج٢ ص ٢٨٢) ''حضرت ابوموسٰی اشعری فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا تمہارے سامنے فتنے (آنے والے) ہیں جیسے تاریک رات کے ٹکرے ہوں۔ اس دَور میں آدمی صبح اُٹھے گا مسلمان اور شام ہوگی تو کافر ہوچکا ہوگا اور شام کو مومن ہوگا صبح اُٹھے گا تو کافر۔ اُس دَور میں بیٹھ رہنے والا کھڑے سے بہتر اور کھڑا چلنے والے سے بہتر اور چلنے والا دَوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا اُس وقت ہمارے لیے جناب کیا حکم فرماتے ہیں ۔اِرشاد ہوا اپنے گھروں کے ٹاٹ بن جانا (جس طرح ٹاٹ زمین پر بچھادیا جاتا ہے اُس پر سامان رکھ دیا جاتا ہے تو اُسے ہر وقت نکالنا آسان نہیں ہوتا اور وہ کچھ