ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2006 |
اكستان |
|
یہ ہمارا اَلمیہ ہے کہ نہ ہماری حکومت اس سلسلہ میں سعودی حکام کو مطلع کرتی ہے کہ ہمارے ٩٥ فیصد حاجی حنفی مذہب کے حامل ہوتے ہیں۔ اگر سعودی حکومت اُنہیں کوئی تحفہ دینا چاہتی ہے تو سادہ قرآن پاک دے دے یا کسی حنفی عالم کی تفسیر دے۔ محمد جونا گڑھی کی تفسیر دے کر وہ ہمارے حجاج کی کوئی خدمت نہیں کرتے بلکہ بہت سے حجاج کو مخمصے میں مبتلا کردیتے ہیں۔ مذکورہ بالا تفسیر کے پہلے صفحہ پر ہی نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں یوں لکھا ہے : ''اس حدیث میں'' مَنْ '' کا لفظ عام ہے جو ہر نمازی کو شامل ہے۔ منفرد ہو یا امام یا امام کے پیچھے مقتدی، سری نماز ہو یا جہری، فرض نماز ہو یا نفل، ہر نماز کے لیے سورة فاتحہ پڑھنا ضروری ہے''۔ قراء ت ِخلف الامام کا یہ مسئلہ احناف کے نزدیک بالکل غلط ہے کیونکہ ہمارے نزدیک امام کی قراء ت مقتدی کی قراء ت ہوتی ہے کیونکہ حضور اکرم ۖ کا ارشاد ہے '' مَنْ کَانَ لَہ اِمَام فَقِرَا ئَ ةُ الْاِمَامِ لَہ قِرَائَ ة '' ( ترمذی، مؤطا امام محمد، مؤطا امام مالک) یعنی جس کا امام ہو تو امام کی قراء ت اُس کی قراء ت ہے اس لیے ہمارے نزدیک حدیث '' لَاصَلٰوةَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَئْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ'' کا مصداق صرف امام اور منفرد ہیں۔ مقتدی کے لیے مذکورہ بالا روایت ہے یعنی امام کی قراء ت مقتدی کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اب ہمارے حجاج کرام کو جب ایسی تفسیر دی جائے گی تو وہ اُلجھن کا شکار ہی ہوںگے۔ دوسرے ائمہ کرام کے نزدیک بھی اگر امام کے پیچھے مقتدی سورة فاتحہ پڑھ لے تو اُس کا جواز ہے۔ کوئی امام بھی مقتدی کے لیے سورة فاتحہ کا پڑھنا ضروری قرار نہیں دیتا جیساکہ اِس تفسیر میں لکھا گیا ہے۔ بہرحال مولانا محمد جونا گڑھی کا تعارف طول پکڑگیا۔ اب تقلید اور مقلدین کے متعلق مولانا جونا گڑھی کیا فرماتے ہیں؟ اس کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ مولانا جونا گڑھی نے مسئلہ تقلید پر ایک کتاب بنام ''طریق محمدی'' لکھی ہے۔ اُس میں تحریر فرماتے ہیں : ''الغرض اتباع رسول کو پرے پھینکنے کا آلہ جو ہر زمانے کے مخالف رسول لوگ اپنے کام میں لاتے رہے یہی تقلید ہے۔ اگر تقلید کی مذمت میں صرف یہی آیتیں ہوتیں جب بھی اس کی بدترین حرمت کے لیے کافی تھیں بلکہ یہ وہ چیز ہے جو اصل اسلام سے دُنیا کو روکتی ہے۔'' (طریق محمدی صفحہ ٢٥)