ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2006 |
اكستان |
|
قسط : ٧ اَللَّطَائِفُ الْاَحْمَدِےَّہ فِی الْمَنَاقِبِ الْفَاطِمِےَّہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب ( حضرت علامہ سےّد احمد حسن سنبھلی چشتی رحمة اللہ علیہ ) رعایت خاصہ حق تعالیٰ باَہل ِبیت : (١٩) عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَدَنِیْ رَبِّیْ فِیْ اَھْلِ بَیْتِیْ مَنْ اَقَرَّ مِنْھُمْ بِالتَّوْحِیْدِ وَلِیْ بِالْبَلَاغِ اَنْ لَّا یُعَذِّبَھُمْ ۔ (اخرجہ الحاکم وصححہ السیوطی ) ''حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا رسول اللہ ۖ نے کہ مجھ سے میرے پروردگار نے وعدہ کرلیا ہے میرے اہل بیت میں سے اُن لوگوں کے لیے جو توحید ِخداوندی اور میری رسالت کا اقرار کریں یہ وعدہ کہ اُن کو عذاب نہ دے گا۔'' (اس روایت کو حاکم نے نقل کیا ہے اور سیوطی نے صحیح کہا ہے) مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد ۖ کے اہل بیت میں سے جو شخص اللہ تعالیٰ کو ہر اَمر میں یکتا جانتا ہوگا اور جناب رسول مقبول ۖ کو پیغمبر برحق سمجھتا ہوگا (یعنی تمام احکام ِشرعیہ کا اقرار کرنے والا ہو) وہ بخشا جاوے گا اگرچہ کسی درجہ کا گنہگار ہوگا اور یہ بات ظاہر ہے کہ ہر مسلمان جوکہ اسلام پر مرے اگرچہ وہ کسی درجہ کا گنہگار ہو رحمت ِخداوندی سے بغیر سزا (بذریعہ رحمت ِالٰہی جس پر بھی ہوجاوے کسی کا قرض نہیں ہے) یا بعد سزائے جہنم، جنت میں ضرور داخل ہوگا پس اِس جگہ کوئی خصوصیت مراد ہے جب تو آپ نے اپنے اہل بیت کی خصوصیت اِرشاد فرمائی ورنہ جس حکم میں عام مسلمان شریک ہیں اُس میں اہل ِبیت کا خاص طریق پر ذکر کرنا کیا ضرور ہے، وہ تو عام مسلمانوں میں خود ہی داخل ہیں ۔