ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2006 |
اكستان |
|
عبدالوہاب کے ساتھ کسی قسم کی نسبت کا اظہار کرکے اپنی ریاست کھونا نہیں چاہتے تھے۔ یہی عقلمندی کا تقاضہ تھا اور وہ اِس میں کامیاب رہے۔ اور آج کے سلفی کہلانے والے غیر مقلدین سعودی عرب سے ریال لینے کی خاطر اپنے آپ کو محمد بن عبد الوہاب کے ساتھ جوڑتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی اِس مہم میں خوب کامیاب ہیں اور خاصا مال بنارہے ہیں وَمَالَھُمْ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۔ قارئین گرامی ! ''ترجمان وہابیہ'' کے حوالہ جات کے بعد اب غیر مقلدین کے ایک بہت مشہور عالم، جو بہت سی کتابوں کے مؤلف بھی تھے جن کا نام ِنامی'' مولانا محمد جوناگڑھی ''ہے، یہ انتہائی متعصب غیر مقلد تھے۔ غیر مقلدیت کے فروغ کے لیے اُنہوں نے بہت کام کیا۔ میرے خیال میں آج کل کے غیر مقلدین جب اپنی نسبت محمدی بتلاتے ہیں تو مراد محمد جونا گڑھی سے نسبت ہوتی ہے۔ کیونکہ حضور اکرم ۖ کا دین پھیلانے والوں اور دین کے پوشیدہ مسائل کو اجتہاد کے ذریعے عوام کے لیے ظاہر کرنے والے ائمہ مجتہدین سے اِن کو خدا واسطے کا بیر ہے۔ نیر صحابہ کرام کے اجماع کو یہ حجت نہیں مانتے۔ جب صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین سے اِن کو عناد ہے تو محمد رسول اللہ ۖ سے اِن کا تعلق کیسے ہوسکتا ہے۔ ہاں محمد جونا گڑھی کی باتوں کو اللہ اور رسول ۖ کی طرف منسوب کرنے میں یہ لوگ ماہر ہیں۔ محمد جونا گڑھی کی ذات غیر مقلدین کے ہاں حجت ہے۔ بالفاظ دیگر آج کے غیر مقلدین حقیقت میں محمد جونا گڑھی کے مقلد ہیں اور اپنی نسبت اُسی کی طرف کرتے ہیں۔ آج کل برصغیر پاک و ہند کے حجاج کرام کو سعودی حکومت اُردو زبان کی ایک تفسیر تحفة ً دیتی ہے وہ بھی محمد جوناگڑھی کی لکھی ہوئی ہے۔ چونکہ سعودی علماء و حکام کو پاک و ہند کے غیر مقلدین نے گھیرا ہوا ہے اور وہ مقلدین خصوصاً احناف کے خلاف اُن کے کان بھرتے رہتے ہیں اس لیے سعودی علماء اُن کو اپنا ہمنوا سمجھ کر اُن کی باتیں مانتے ہیں حالانکہ اگر سعودی علماء کو پتہ چل جائے کہ یہاں پر سلفی کہلانے والے لوگ سلف صالحین سے بدگمانی رکھتے ہیں او ر ائمہ کی تقلید کو شرک کہتے ہیں تو کبھی اِن کو منہ نہ لگائیں۔ کیونکہ سعودی حکومت کا سرکاری مذہب ''فقہ حنبلی'' ہے اور یہ سلفی کہلانے والے جہاں احناف کو مشرک کہتے ہیں وہاں شوافع، موالک اور حنابلہ کو بھی مشرک ہی سمجھتے ہیں۔ ہاں سعودی عرب میں اِس کا اظہار کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ اِس طرح ملک بدری ہوگی اور ریالوں کی کمائی ختم ہوجائے گی۔ کاش سعودی حکام کو کوئی اِن لوگوں کی حقیقت سے آگاہ کردے تو پھر کم از کم تفسیر کے نام پر ہمارے حجاج کو جو کتاب دی جاتی ہے وہ اِس عطیہ سے بچ جائیں گے۔