ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2006 |
اكستان |
|
کہتے ہیں اور نہ حنبلی اور مالکی کہنے سے راضی ہوتے ہیں۔ پھر محمد بن عبد الوہاب کے پیچھے چلنے اور اُن کے طریقہ میں اپنے تئیں داخل کرنے پر کب راضی ہوںگے''۔ (ترجمان ِوہابیہ صفحہ 19) اِس عبارت میں ائمہ اربعہ میں سے کسی کی تقلید نہ کرنے اور محمد بن عبد الوہاب سے کسی قسم کا تعلق نہ ہونے کا واضح اور بین ثبوت موجود ہے جبکہ موجودہ سلفی کہلانے والے غیر مقلدین اس تعلق کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ اِسی کتاب میں نواب بھوپالی آگے جاکر لکھتے ہیں : ''ہم لوگ ایک خدا کے پوجنے والے، ایک پیغمبر برحق کے چال و چلن پر چلنے والے، حنفیہ اور شافعیہ کی تقلید کو پسند نہیں کرتے۔ اسی طرح مالکیہ اور حنبلیہ کی تقلید سے خورسند نہیں ہوتے، پس اس صورت میں تہمت وہابیت کی ہرگز ہمارے اُوپر ٹھیک اور دُرست نہیں ہوسکتی''۔ نواب صاحب کی یہ عبارت بھی مندرجہ بالا دونوں باتوں کی حامل ہے یعنی عدم تقلید اور اظہار براء ت از محمد بن عبد الوہاب نجدی۔ نواب صاحب اسی کتاب میں رقمطراز ہیں : ''پھر باوجود نہ ہونے کسی علاقہ کے اُن کو محمد بن عبد الوہاب کی طرف منسوب کرنا عجب طرح کا افتراء ہے۔ اور بڑی بات تو یہ ہے کہ ہم لوگ تو صرف کتاب و سنت کی دلیلوں کو اپنا دستور العمل ٹھہراتے ہیں اور اگلے بڑے مجتہدوں اور عالموں کی طرف منسوب ہونے سے عار کرتے ہیں۔ پھر کیونکر ہوسکتا ہے کہ محمد بن عبد الوہاب کی طرف کہ وہ بھی ایک مذہب خاص حنبلی کی طرف منسوب تھا، اُس کے ساتھ اپنی نسبت ظاہر کریں اور اُس کی طرف منسوب ہونے سے مسرور و محظوظ ہوں''۔ (ترجمان ِوہابیہ ص ٢٠) نواب صاحب کی یہ عبارت بھی مذکورہ بالا دونوں اُمور پر مشتمل ہے بلکہ یہاں پر تقلید کرنے کو باعث عار قرار دیا ہے۔ اور محمد بن عبد الوہاب سے ہر قسم کی نسبت اور تعلق سے انکار کیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ نواب صاحب کی ریاست انگریزی حکومت کے تحت تھی اور انگریز وہابی تحریک کے خلاف تھا تو نواب صاحب محمد بن