ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2006 |
اكستان |
|
ہمارا مال چھین لیں اور ہم کو نہ دیںتو ہم کو نہ چاہیے کہ ہم اُن کو قید کریں یا اُن کے مقدمہ کو حاکم تک پہنچائیں، اِس لیے کہ یہ بضعہ (ٹکڑا) رسول ۖ ہیں۔ حکایت : ایک بار عبد اللہ بن حسن حضرت عمر بن عبد العزیز(جو خلیفۂ وقت زاہد پارسا تابعین میں سے تھے) کے پاس آئے کسی کام کے لیے، اُنہوں نے کہا آپ کو جب کچھ کام ہوا کرے تو آدمی بھیج کر مجھے بلوالیا کریں میں حاضر ہوں گا یا مجھ کو رُقعہ لکھ بھیجا کریں مجھے اللہ سے شرم آتی ہے کہ وہ تم کو میرے دروازے پر دیکھے۔ حکایت : ایک بار دُختر اُسامہ بن زید (حضرت زید حضور ۖ کے آزاد شدہ غلام تھے پس یہ لڑکی اُن کی پوتھی تھیں) حضرت عمر بن عبد العزیز کے پاس گئیں۔ خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے اُن کو اپنی جگہ بٹھایا اور آپ سامنے اُن کے بیٹھے اور اُن کا ہر کام پورا کردیا۔ ذرا غور کرو کہ جب جناب رسول مقبول ۖ کے غلام کی پوتی سے یہ برتائو تھا تو تیرا کیا گمان ہے کہ وہ آپ ۖ کی اولاد سے کیسا برتائو کرتے ہوں گے۔ حکایت : حضرت معاویہ کو یہ بات پہنچی کہ حابس بن ربیعہ مشابہ آنحضرت ۖ ہیں تب سے جب کبھی وہ آتے تو حضرت امیر معاویہ اُن کے لیے اپنے تخت سے اُٹھ کر پیشوائی کرتے اور دونوں آنکھوں کے بیچ بوسہ دیتے۔ حکایت : حضرت علی خواص (مرشد حضرت شیخ عبد الوہاب شعرانی ) کہتے تھے کہ چاہیے شریف پر (جو اہل ِبیت سے ہو) ہم اپنی جان فدا و قربان کردیں کیونکہ گوشت اور خون رسول کریم ۖ اُس میں اثر کرنے والا اور جاری ہے اور وہ ایک پارۂ گوشت ہے آنحضرت ۖ کا۔ بعض اہل علم نے کہا ہے حقوق شرفاء (اہل بیت) کے ہم پر یہ ہیں، اگرچہ وہ خاندان میں دُور ہوں کہ ہم اُن کی رضا کو اپنی خواہش پر ترجیح دیں اور اُن کی تعظیم و توقیر بجالائیں اور جب وہ زمین پر بیٹھے ہوں ہم تخت پر نہ بیٹھیں۔ امام مالک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں جو کوئی جھوٹا دعویٰ شرف (خاندان ِنبوی ۖ اور اولادِ نبوی ۖ) کا کرے اُس کو سخت مارنا اور مدت تک قید میں رکھنا چاہیے یہاں تک کہ توبہ کرے اِس لیے کہ اِس میں حضرت ۖ کا استخفاف ہوتا ہے (کہ نااہل اہل ِبیت نبوت ۖ میں داخل ہوتا ہے) اور جس سیّد کے