ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2006 |
اكستان |
|
حضرت قدامہ بن مظعون بدری ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے بیعت خلافت اس وقت تک نہیں لی جب تک بدری حضرات نے بالاتفاق اِن سے درخواست نہیں کی۔ یہی بات اُنہوں نے صفین کے موقع پر اِرشاد فرمائی ہے کیونکہ عشرہ مبشرہ کے بعد اسلام میں سب سے بڑا درجہ اہل بدر کا بتلایا گیا ہے۔ انہوں نے عشرہ مبشرہ کے علاوہ اہل بدر کو بھی اپنے نزدیک اہل حل و عقد میں شمار فرمایا ہے۔ فَقَالَ عَلِیّ اِنَّمَا ھٰذَا لِلْبَدْرِیّیْنَ دُوْنَ غَیْرِھِمْ وَلَیْسَ عَلٰی وَجْہِ الْاَرْضِ بَدْرِیّ اِلَّا وَھُوَ مَعِیْ وَقَدْ بَایَعَنِیْ وَقَدْ رَضِیَ فَلا یَغُرَّنَّکُمْ مِّنْ دِیْنِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ۔ (البدایہ ج ٧ ص ٢٥٩) ''حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ کے جواب میں فرمایا کہ اَمارت طے کرنے کا حق اہل بدر کا ہے نہ کہ اور لوگوںکا۔اور رُوئے زمین پر کوئی بدری نہیں ہے جو میرے ساتھ نہ ہو ۔(ہر بدری نے) مجھ سے بلاشبہ بیعت بھی کی ہے اور میری خلافت پر راضی بھی ہے تو کوئی شخص (یا کوئی بات یا شبہہ) تم لوگوں کو اپنے دین اور جان کے معاملہ میں دھوکہ نہ دے دے (اس کا خیال کرو)۔'' غرض حقیقت یہ ہے مدینہ منورہ میں موجود تمام صحابہ کرام مہاجرین و انصار بلکہ سب اہل بدر نے آپ سے بیعت کی۔ ابن حجر الھیثمی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : وَجَائَ النَّاسُ یُھْرَعُوْنَ اِلَیْہِ فَقَالُوْا لَہ نُبَایِعُکَ فَمَدَّ یَدَکَ فَلا بُدَّ مِنْ اَمِیْرٍ فَقَالَ عَلِیّ لَیْسَ ذٰلِکَ اِلَیْکُمْ اِنَّمَا ذٰلِکَ اِلٰی اَھْلِ بَدْرٍ۔ فَمَنْ رَضِیَ بِہ اَھْلُ بَدْرٍ فَھُوَ خَلِیْفَة فَلَمْ یَبْقَ اَحَد مِّنْ اَھْلِ بَدْرٍاِلَّا اَتٰی عَلِیًّا فَقَالُوْا مَا نَرٰی اَحَدًا اَحَقَّ بِھٰذَا مِنْکَ مَدَّ ےَدَکَ نُبَایِعْکَ فَبَایَعُوْہُ۔ (الصواعق المحرقة فی الرد علی اھل البدع والزندقة لاحمد بن حجر المکی الھیثمی ص ١١٨) ''لوگ تیز تیزچلتے ہوئے حضرت علی کے پاس پہنچے۔ کہنے لگے ہم آپ سے بیعت کرتے ہیں آپ ہاتھ آگے بڑھائیے کیونکہ امیر کا تقرر نہایت ضروری ہے۔ اس پر حضرت علی