ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2006 |
اكستان |
|
اس امتحانی دور میں یکسو رہے لڑائی میں نہ حضرت علی کے ساتھ شریک ہوئے نہ حضرت معاویہ کے ساتھ۔ پھر یہ کہ حضرت علی حضرت سعد کی اس روش پر رَشک کیا کرتے تھے۔ حضرت علی سے یہ کلمات منقول ہیں: کہ سعد اورابن عمر نے کتنا عمدہ موقف اختیار کیا ہے۔ اگر یہ (میرے ساتھ لڑائیوں میں شریک نہ ہونا) گناہ ہے تو چھوٹا گناہ ہے اور اگر یہ نیکی ہے تو بڑی نیکی ہے۔ محدثین سفیان ثوری کی ایک بات کی بہت تعریف کرتے ہیں،انہوں نے کہا : یَقْتَدِیْ بِعُمَرَ فِی الْجَمَاعَةِ وَبِاِبْنِہ فِی الْفُرْقَةِ۔ (تذکرة الحفاظ للذہبی ج١ ص ٣٨ ) ''اجتماع کے وقت حضرت عمر کی پیروی کرنی چاہیے اور افتراق کے وقت ان کے صاحبزادے (عبد اللہ بن عمر) کی۔'' حضرت سعد کی عدم شرکت قتال اس ممانعت کی وجہ سے تھی جو جناب رسول اللہ ۖ نے فرمادی تھی لیکن حضرت ابن عمر کی عدم شرکت اجتہادی تھی اس لیے بعد کے زمانہ میں ان سے کلمات ندامت منقول ہیں۔ قَالَ ابْنُ عُمَرَ مَااَجِدُنِیْ اٰسٰی عَلٰی شَیْئٍ فَاتَنِیْ مِنَ الدُّنْیَا اِلَّا اَنِّیْ لَمْ اُقَاتِلْ مَعَ عَلِیٍّ اَلْفِئَةَ الْبَاغِیَةَ۔ (استیعاب مع الاصابہ ج٢ ص ٣٣٧ ) ''حضرت ابن عمر نے فرمایا میں اپنے دل میں اس دُنیا میں عمل کی کسی چیز کے رہ جانے پر (رنج و) ملال نہیں پاتا سوائے اِس کے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک ہوکر اُن کی باغی جماعت سے قتال کیوں نہیں کیا۔ '' یہ روایات ہیں جن کی وجہ سے تخلف عن القتال ہوا لیکن انکار بیعت نہیں ہوا۔ ابن خلدون نے یہ نام ذکر کرنے کے بعد اختصار سے کام لیا ہے بات واضح طرح نہیں لکھی یا اُنہوںنے نام پوری طرح تحقیق سے نہیں لکھے۔ تاریخ کی کتابوں میں ہمارے نقطۂ نظر سے یہ بنیادی خامی ہوتی ہے کہ ان میں عوام میں شہرت یافتہ حکایات تاریخ کا جزء بناکر لکھ دی جاتی ہیںاس لیے تاریخ کی جو بات اصول حدیث اور حدیث سے متصادم ہو اُسے رد کردینا ضروری ہوگا ورنہ غلط تاریخ ہی تحریر میں آتی رہے گی۔