ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2006 |
اكستان |
رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کا اختیار تم لوگوں کو نہیں ہے اس کا اختیار اہل بدر کو ہے ،جس پر اہل بدر متفق و راضی ہوں وہی خلیفہ ہوگا۔ پھر اہل بدر سب کے سب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ سے زیادہ اِس منصب کا اہل ہم کسی کو نہیں سمجھتے۔ اپنا ہاتھ بڑھائے ہم آپ سے بیعت کرتے ہیں چنانچہ اِن حضرات نے بیعت کی۔ '' نیز یہی مضمون تاریخ ابن اثیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ (الکامل ج ٣ ص ١٩٠) پھر ابن حجربعنوان ''تنبیہ'' تحریر فرماتے ہیں کہ : ''ہم نے جو لکھا ہے اس سے یہ معلوم ہوگیاہے کہ تینوں خلفاء کرام کے بعد لائق خلافت امام مرتضٰی اور ولی مجتبیٰ علی بن ابی طالب ہی ہیں۔باتفاق اہل حل وعقد جیسے حضرت طلحہ، ابوموسی، ابن عباس، خزیمة بن ثابت، ابوالھیثم بن التیھان، محمد بن مسلمہ اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم۔ اور شرح المقاصد میں ہے کہ کچھ اہل کلام (اہل عقائد) علماء نے فرمایا ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ' کی خلافت پر اجماع منعقد ہواہے (اور بالاجماع انعقاد خلافت کی وجہ یہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وفات کے وقت چھ اکابر عثمان، علی، عبدالرحمن بن عوف، طلحہ، زبیر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم پر مشتمل شوریٰ مقرر فرمادی کہ اِن میں سے کسی ایک کو کثرت ِرائے سے منتخب کرلیا جائے تو اُس وقت دو نام آئے تھے حضرت عثمان اور حضرت علی)۔ خلافت دو حضرات میں منحصر تھی یا عثمان خلیفہ ہوں یا علی۔ اور یہ اجماع ہے اس بات پر کہ اگر حضرت عثمان خلیفہ نہ ہوئے ہوتے تو علی ہی خلیفہ ہوتے تو جب حضرت عثمان شہادت کی وجہ سے (دُنیا میں موجود نہ رہے) اور اس معاملہ میں سے وہ باہر ہوگئے تو یہ بات صاف معلوم ہورہی ہے کہ پھر خلافت علی رضی اللہ عنہ ہی بالاجماع رہ گئی اور اسی لیے امام الحرمین نے فرمایا ہے کہ ان لوگوں کی بات کا کوئی اعتبار نہیں جو یہ کہیں کہ امامت علی رضی اللہ عنہ پر اجماع نہیں ہوا کیونکہ ان کی خلافت کا انکار ہی نہیں کیا گیا۔ فتنہ کے اور اسباب تھے جن کی وجہ سے وہ رُونما ہوا۔ (الصواعق المحرقة ص ١١٩)