ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2006 |
اكستان |
|
الْفِئَتَیْنِ فَیَرْمِیْنِیْ رَجُل بِسَھْمٍ اَوْ یَضْرِبُنِیْ بِسَیْفٍ فَیَقْتُلُنِیْ قَالَ یَبُوْئُ بِاِثْمِہ وَاِثْمِکَ فَیَکُوْنُ مِنْ اَصْحَابِ النَّارِ قَالَھَا ثَلٰثًا۔(ازالة الخفاء ج٢ ص ٢٨٢) ''حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا دیکھو! عنقریب فتنہ ُرونما ہوگا۔ دیکھو! پھر فتنہ ہوگا اُس وقت بیٹھ رہنے والا کھڑے سے اور کھڑا چلنے والے سے اور چلنے والا اُس کی طرف دَوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ جب فتنہ واقع ہو تو جس کے پاس اُونٹ ہوں وہ اپنے اُونٹوں میں اور جس کے پاس بکریاں ہوں وہ اپنی بکریوں میں اور جس کے پاس زمین ہو وہ اپنی زمین پر چلاجائے۔ اِس پر ایک شخص نے عرض کیا اے رسول خدا ! اگر کسی کے پاس نہ اُونٹ ہوں نہ بکری نہ زمین (تو وہ کیا کرے) ؟اِرشاد فرمایا کہ پتھر لے کر اپنی تلوار کی دَھار کوٹ ( کھنڈی کر) ڈالے، پھر اُس فتنے سے اگر ممکن ہو تو نجات حاصل کرے۔ پھر آپ نے تین بار اِرشاد فرمایا اے اللہ! کیا میں نے پیغام پہنچادیا۔ ایک شخص عرض کرنے لگے کہ اگر مجھے مجبور کرکے دونوں میں سے کسی ایک گروہ کی صف میں اِن دو میں سے کسی ایک جماعت کے ساتھ لے جایا گیا پھر کوئی میرے تیر ماردے یا تلوار سے وار کرکے مجھے قتل کرڈالے (تو ایسی صورت میں میرا شمار کن لوگوں میں ہوگا) ؟فرمایا وہ تمہارا اور اپنا گناہ اپنے سر لے جائے گا اور جہنمی ہوگا۔ یہ بات آپ نے تین بار فرمائی۔ '' اِن روایات میں جن صحابہ کرام کو جناب رسول اللہ ۖ نے آنے والے دور میں قتال کی ممانعت فرمائی تھی وہ شریک ِقتال نہیں ہوئے اور ایسے حضرات کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ' نے پھر مجبور بھی نہیں کیا۔ بلکہ ایسا بھی منقول ہے کہ آپ نے ایسے اکابر کے حق میں کلمات تحسین استعمال فرمائے ہیں، مثلاً حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں تحریر ہے : اِعْتَزَلَ الْفِتْنَةَ وَلَمْ یُقَاتِلْ مَعَ عَلِیٍّ وَّ مُعَاوِیَةَ ثُمَّ کَانَ عَلِیّ یَغْبِطُہ عَلٰی ذٰلِکَ۔فَعَنْہُ اَنَّہ قَالَ: لِلّٰہِ مَنْزِل نَزَلَہ سَعْد وَّابْنَ عُمَرَ لَئِنْ کَانَ ذَنْبًا اِنَّہ لَصَغِیْر وَّلَئِنْ کَانَ حَسَنًا اَنَّہ لَعَظِیْم ۔ (تذکرة الحفاظ للذھبی ج ١ ص ٢٢)