ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2006 |
اكستان |
|
سے زیادہ ہوںگے۔ اگر صرف غیر مقلد ہی مسلمان رہ گئے تو اللہ تعالیٰ کو اتنی بڑی جنت بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ انہیں تو اینٹوں کے ایک بڑے بھٹہ کے گیڑوں میں ہی ٹھہرایا جاسکتا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ مقلد بزرگانِ دین اور صوفیائے کرام نے کروڑوں ہندئووں کو مسلمان کیا۔ جن میں بابا فرید،علی ہجویری،خواجہ نظام الدین اولیائ، خواجہ معین الدین اجمیری، پیرانِ کلیر شریف، مجدد الف ِ ثانی اور شاہ ولی اللہ دہلوی رحمھم اللہ کے نام نامی سرِ فہرست ہیں۔ اِن مقلد بزرگوں نے تو کافروں کو مسلمان بنایا، مگر غیر مقلد پروفیسر نے تمام مقلد مسلمانوں کو مشرک بناکر رکھ دیا۔ واعظ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان ہوں میں رسائل بہاولپوری میں پروفیسر صاحب کا ایک رسالہ ''کہاں مقلد اور کہاں اتباع رسول'' ہے، ان رسائل کے صفحہ ١٧٦ پر جہاں سے یہ رسالہ شروع ہوتا ہے، موصوف فرماتے ہیں : ' 'تقلید بھی ایک آفت ہے کہ بندہ ایک مرتبہ اِس کے چنگل میں پھنس جائے تو پھر سنت رسول پر عمل کے قابل نہیں رہتا۔ وہ پھر اندھا بہرا ہوکر اپنے تقلیدی مذہب پر ہی چلتا ہے، خواہ سنت رسول کے مطابق ہو یا مخالف''۔ یہاں پر موصوف نے مقلدین کو اندھا بہرا ہونے کا خطاب عطا کردیا ہے حالانکہ قرآن پاک نے اندھا اور بہرا ہونے کا خطاب معاندین ِکفار کو دیا ہے نہ کہ مسلمانوں کو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے صُمّ بُکْم عُمْی فَھُمْ لَایَرْجِعُوْنَ o پروفیسر صاحب اِسی صفحہ پر چند سطور کے بعد مقلدین کے خلاف اپنے بغض کا اظہار یوں کرتے ہیں : ''مقلد کی نماز کبھی آنحضرت ۖ کی نماز کے مطابق نہیں ہوسکتی کیونکہ مقلد کبھی متبع رسول نہیں ہوسکتا۔ اگر مقلد کو اتباع رسول کرنا ہو تو وہ کسی کا مقلد ہی کیوں بنے۔ جب وہ کسی کا مقلد بن گیا تو وہ اتباع ِرسول کیسے کرسکتا ہے؟ تقلید مقلد کو اجازت نہیں دیتی کہ وہ کسی اور کا اتباع کرے۔ تقلید تو طوق اور بیڑی ہے جو مقلد کو اپنے امام کی تقلید سے آزاد نہیں ہونے دیتی۔'' (رسائل بہاولپوری صفحہ ١٧٦) پروفیسر صاحب نے یہاں پر تمام مقلدین کی نماز کو خلاف سنت قرار دے کر تمام مقلدین کو بے نماز قرار