ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2006 |
اكستان |
|
قسط : ٢ ، آخری ندوة العلماء لکھنؤ انڈیا سے حضرت مولانا سیّد محمودحسن حسنی صاحب ندوی مدظلہم(نائب مدیر ماہنامہ تعمیر حیات) کی پاکستان آمد ہوئی، اس موقع پر ٢ مئی کو جامعہ مدنیہ جدید رائیونڈ روڈ بھی تشریف لائے اپنی اس آمد پر جامعہ مدنیہ جدید کے اَساتذہ کرام اور طلباء سے مفصل خطاب فرمایا۔اُن کے قیمتی بیان کا متن قارئین ِکرام کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔(اِدارہ) اِصلاح ِ نیت اور دین کی دعوت ( حضرت مولانا سید محمود حسن حسنی صاحب ندوی مدظلہم ) آپ جو ہیں وقت کے ظالم حکمرانوں کو اسلام کا پیغام پہنچائیں۔ آپ اپنی زبانوں میں قوت پیدا کیجئے، اپنی زبانوں میں صلاحیت پیدا کیجئے اورصحیح اصلوب جانیئے، صحیح طریقہ کار جانیئے کہ آج آپ اس کی وجہ سے صحیح بات ظالموں کو بھی پہنچائیں ۔ کیا موسیٰ علیہ السلام فرعون کے پاس نہیں گئے تھے؟اللہ کوکیا معلوم نہیں تھا کہ فرعون نجات پائے گا کہ نہیں پائے گا، سب کچھ اللہ کو معلوم ہے۔ یہ انبیاء کی ذمہ داریاں نہیں ہیں یہ آج اُمت کی ذمہ داریاں ہیں۔ رسول اللہ ۖ کے بعد اَب اِس اُمت کی ساری ذمہ داری ہے چاہے سرکش کے سامنے چاہے سرکش نہ ہو جاہل ہو، چاہے ناواقف ہو چاہے عالم ہو سکالر ہو، چاہے دانشور ہو مفکر ہو، چاہے وہ دُنیا کے کسی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو۔ لیکن آپ کو صحیح بات پہنچانی ہوگی، آپ کو صحیح بات اُس کے گوش گزارکرنی ہوگی۔ آج آپ اس ملک کو دیکھیں مختلف خطوں اور علاقوں کے لوگ ہیں لیکن آپ سوچیںہم اِن خطوں میں تو کام کرسکتے ہیں، اِن زبانوں کو جانتے ہیں، ہم یہاں کام کرلیں گے اگر آپ اپنی اسی سوچ پر قناعت کرلیتے تو آپ تک دین کیسے پہنچتا۔ ہندوستان میں جو آج اِسلام پہنچا ہے اور جو آج آپ مسلمان ہیں، آپ جو آج اللہ کا نام لینے والے ہیں تو یاد رکھیے اگر اُسی پر قناعت کرلیتے تو آج آپ تک دین کیسے پہنچتا۔ اگر عرب قناعت کرلیتے اُسی پر تو اُن دنوں ہندوستان میں دین کیسے پہنچتا۔ اور مغربی ممالک مراکش میں دین کیسے پہنچتا۔ افریقہ کے علاقوں میں دین کیسے پہنچتا، مصر کیسے فتح ہوتا۔ شام کیسے فتح ہوتا، یہ عربوں کے اندر حوصلہ اور جذبہ تھا کہ ہمیں یہ کام کرنا ہے۔ آپ جانتے