ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2006 |
اكستان |
|
ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے مقلدین کے بارے میں غیر مقلدین ( نام نہاد اہل ِ حدیثوں)کا نقطہ نظر ( جناب پروفیسر میاں محمد افضل صاحب ) نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ! قارئین کرام! ٢٠٠٥ء کے جون کے مہینے میں بندہ کو پروفیسر محمد رفیق اذفر کی قیادت میں عمرہ کے لیے حرمین شریفین جانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس مرتبہ قاری عتیق اللہ صاحب مدرس مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ زادھا اللہ شرفًا کے توسط سے مولانا ڈاکٹر سعید احمد سیالکوٹی سے ملاقات ہوئی۔ مولانا ایک متحرک شخصیت کے مالک ہیں۔ تدریس کے علاوہ خدمت خلق اور اشاعت دین کے جذبے سے سرشار ہیں۔ مولانا کے حکم پر ایک تقریب میں جانے کا موقع ملا، وہاں فضیلة الشیخ حضرت مولانا ملک عبد الحفیظ مکی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ حرمین شریفین میں غیر مقلدین (نام نہاد اہلحدیثوں) کی مقلدین کے خلاف عمومی اور احناف کے خلاف خصوصی چیرہ دستیوں کا ذکر آیا، تو بندہ نے کہا کہ حکومت سعودی کا سرکاری مذہب تو فقہ حنبلی ہے، کیا یہ لوگ انہیں بھی مشرک کہتے ہیں؟ تو جواب ملا کہ یہاں پر غیر مقلدین تقیہ بازی کرتے ہیں اور تقلید کا مسئلہ نہیں چھیڑتے، کیونکہ اگر یہاں رہ کر مقلدین کو مشرک کہیں تو ان کے ریال بند ہوجاتے ہیں۔ یہاں پر اپنے آپ کو سلفی وغیرہ کے نام سے متعارف کراتے ہیں۔ انکی ''رفع یدین'' اور ''آمین'' چونکہ حنابلہ سے ملتی ہے اس لیے اپنا غیر مقلد ہونا ظاہر نہیں کرتے، بلکہ سعودی علماء کے ذہن نشین کراتے ہیں کہ بر صغیر پاک و ہند کے تمام حنفی قبر پرست اور شرک کے مرتکبین میں سے ہیں اور اپنے آپ کو اُن کا ہم مسلک بتاتے ہیں۔ اس طرح احناف کے خلاف سازشیں کرنے کی انہیں کھلی چھٹی مل جاتی ہے اور وہ اِس سے بھرپور فائدہ اُٹھاکر یہاں رہنے والے احناف کا ناطقہ بند کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اُن کی یہ باتیں سن کر یاد آیا کہ ایک غیر مقلد عالم بدیع الدین عرف پیر جھنڈا بھی سعودی عرب میں مستقل رہتے تھے۔ اُنہوں نے کسی نجی محفل میں کہہ دیا کہ'' مقلد مشرک ہیں خواہ حنبلی ہوں یا حنفی''۔ جب سعودی حکام کو اِن کی سرگرمیوں کا علم ہوا تو انہیں سعودی عرب سے نکال دیا گیا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ سعودی عرب میں