ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2006 |
اكستان |
|
دیارِ حبیب میں چند روز ( جناب مولانا عطاء الرحمن صاحب خانوخیل، ڈیرہ اسماعیل خان ) 1427 ھ میں حج کی سعادت سے اللہ تعالیٰ نے نوازا۔ وہاں سب سے پہلے مخلوق خدا کی طرف سے اپنے اُوپر ہونے والی زیادتیوں کو معاف کرکے اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگی۔ سب حجاج حاضرین کی حج کی قبولیت کی دُعا مانگتے ہوئے اپنے حج کے قبول ہونے کی دُعا کی اور ابھی تک قبولیت ِحج کے لیے بارگاہِ الوہیت میں دست ِبدُعا ہیں۔ 35,30 لاکھ کے اجتماع میں یقینا ایسی برگزیدہ ہستیاں ضرور ہوں گی جن کے طفیل ہماری حاضری قبول ہوگئی ہوگی اور ہر نماز کے بعد متعدد جنازے پڑھے جانے والوں میں یقینا ایسے جنازے ضرور ہم نے پڑھے ہوں گے جن کی وجہ سے ہماری بخشش اور مغفرت کا فیصلہ ہوگیا ہو گا۔ حج کے اِس سالانہ اجتماع میں رُوئے زمین کے متعدد اولیائے کرام ضرور موجود ہونگے اور ائمہ حرمین کی اقتداء میں پنج وقتہ باجماعت نمازیں ادا کرتے ہوں گے جس سے ائمہ حرمین کا امام الاولیاء ہونا ثابت ہوتا ہے۔ تو ایسی برگزیدہ ہستیوں کی اقتداء میں نمازیں نصیب ہونا اللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی و فضل کی علامت ہے۔ اس سعادت پر اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات کا جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم پھر بھی ہمارے شکر سے اَجل و اعظم ہے۔ حج کا عمل یقینا محنت و مشقت سے عبارت ہے اس لیے جناب سرکارِ دوعالم ۖ حج کی نیت کرتے ہوئے اِس میں قبولیت ِحج کے ساتھ فَیَسِّرْہُ لِیْ ''اللہ اِس کو میرے لیے آسان فرما''بھی ساتھ مانگا تو وہاں یہ مشاہدہ ہوجاتا ہے کہ باوجود محنت طلب عمل ہونے کے اللہ تعالیٰ اِس کو آسان فرمادیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اِس عمل ادا کرنے میں ایسا جذبہ، شوق و محبت عطا فرمادیتے ہیں کہ ہر محبت میں ایک لُطف و سرور کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور بندہ ایک حالت وجد میں اپنے آپ کو محسوس کرتا ہے۔ اتنے ہجوم کے باوجود ہر ایک اِس حالت میں ہوتا ہے کہ میری وجہ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ اگر مجھے کسی سے تکلیف پہنچ جائے تو اُسے برداشت کرکے مجھے ترقی درجات نصیب ہوگی اور حقیقت میں یہ بھی حج کی رُوح اور ماہیت کا ایک حصہ ہے اور یہ چیز اگر ہماری طبیعت ثانیہ بن جائے تو یقینا اللہ تعالیٰ کی رضا کی ایک بہت بڑی علامت ہے۔ ہم اس صراط مستقیم کو چھوڑکر ایک ایسے راستے پر گامزن ہیں کہ آئے