ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2006 |
اكستان |
|
قسط : ٦ اَللَّطَائِفُ الْاَحْمَدِےَّہ فِی الْمَنَاقِبِ الْفَاطِمِےَّہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب ( حضرت علامہ سےّد احمد حسن سنبھلی چشتی رحمة اللہ علیہ ) (١٨) عَنْ فَاطِمَةَ الزَّھْرَآئِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلُّ بَنِیْ اُمٍّ یَّنْتَمِؤُنَ اَلٰی عَصَبَةٍ اِلاَّ وُلْدَ فَاطِمَةَ فَاَنَا وَلِیُّھُمْ وَاَنَا عَصَبَتُھُمْ ۔ ( اخرجہ الطبرانی بسند حسن) ''حضرت سیّدة النساء فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ۖ نے ہر ماں کی اولاد نسبت کی جاتی ہے اپنے باپ کے نر رشتہ داروں کی طرف یعنی باپ و دادا و پردادا وغیرہ کی طرف مگر اولاد ِفاطمہ اس لیے کہ میں اُن کا ولی ہوں اور اُن کا عصبہ ہوں۔'' لفظ ''عصبہ'' کے معنی حدیث گزشتہ کی شرح میں گزرچکے ہیں وہی یہاں مراد ہیں اور ولی و عصبہ یہاں متحد المعنی ہیں پس مطلب یہ ہوا کہ جب میں عصبہ ہوں تو وہ اولاد میری طرف منسوب ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے بسند حسن روایت کیا ہے۔ حضرت فاطمہ سے اَٹھارہ حدیثیں کتابوں میں مروی ہیں کما فی روضة الاحباب للسید المحدّث۔ اور غالباً وجہ روایت کی کمی کی یہ ہے کہ سلسلۂ روایت حضور ۖ کے بعد اہتمام کے ساتھ شروع ہوا اور آپ حضور ۖ کے بعد فقط چھ ماہ زندہ رہیں چنانچہ حضور ۖ کے بعد تھوڑے دنوں زندہ رہنے کے باعث حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق سے بھی روایت ِحدیث کی کم ہوئی۔ حضرت فاطمہ کی ذہانت اور اُس پر رسول اللہ ۖ کا مدح فرمانا : آپ کا حقیقی علم اعلیٰ درجہ کا تھا جو معرفت ِالٰہی ہے، آپ کے رُتبہ کے موافق معتبر حدیث میں ہے کہ