ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2006 |
اكستان |
|
حرف آغاز نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد ! حدیث شریف میں آتا ہے کہ دیہاتی ( ان پڑھ ) لوگ نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے اور پوچھتے کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ (اُن کو آسان طرح سمجھانے کی خاطر) اُن میں سب سے کم عمر کی طرف دیکھتے اور فرماتے اگر یہ زندہ رہا تو اِس کا بڑھا پا آنے سے پہلے تم پر تمہاری قیامت آجائے گی۔( بخاری ص ٩٦٤ ج٢) مطلب یہ ہے کہ ارض وسمٰوٰت اور ہر چیز کی موت اور بڑی قیامت کے آنے میں تو دیر ہے اور اس کا حتمی وقت صرف اللہ کو معلوم ہے البتہ ہرشخص کی موت جس کو چھوٹی قیامت بھی کہا جاسکتا ہے وہ بہت قریب ہے اور تم سے ہر ایک پر وہ بہت جلد آنے والی ہے حتی کہ تم میں یہ جو کم سن ہے، اگر یہ زندہ رہا تو تم سب کی قیامت اِس سے پہلے ہی آجائے گی ،لہٰذا اِس کی فکر کرو۔ اگر یہ چھوٹی قیامت اچھی ہوگئی تو وہ بڑی قیامت بھی اچھی ہوجائے گی اور اگر خدانخواستہ یہ چھوٹی قیامت خراب ہوگئی تو بڑی قیامت تو اور بھی خراب ہو گی۔ حضرت ابوقتادہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی علیہ السلام کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ نے فرمایا کہ خود کے لیے راحت حاصل کرچکا ہے یا لوگ اِس کی طرف سے راحت (کا سانس) حاصل کرچکے ہیں (حدیث کے الفاظ ہیں مُسْتَرِیحْ وَ مُسْتَرَاح مِّنْہُ ) صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! مُسْتَرِیحْ وَ مُسْتَرَاح مِّنْہُ