ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2006 |
اكستان |
|
صدق ِ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا : حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بعد رسول اللہ ۖ کے میں نے فاطمہ سے زیادہ کسی کو سچا نہیں پایا۔ ایک بار حضرت سیدة النسائ اور حضرت عائشہ صدیقہ میں کچھ رنجش ہوگئی۔ آنحضرت ۖ دریافت فرمانے لگے تو حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ جو فاطمہ کہتی ہیں وہی درست ہے وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتیں۔ اشعة اللمعات میں صحیح سند سے مروی ہے کہ آپ جمعہ کے روز اپنی خادمہ کو حکم دیتی تھیں کہ جب آفتاب غروب ہونے کے قریب ہو مجھے اطلاع دینا کہ میں اُس وقت (خاص طور پر) ذکر و دُعا میں مشغول ہوں (جمعہ کے روز جو گھڑی قبولیت ِدُعا کی ہے اُس میں بہت قول ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ وقت اخیر دن میں ہے) اور واضح ہو کہ دُعا میں اپنی ذات کو بھی شریک کرنا چاہیے اور اپنے نفس کی طرف سے بے پروانہ ہو مگر قصّہ مذکورہ میں شفقت اُمت ِمحمدیہ ۖ کی وجہ سے غالباً ایسا غلبہ ہوا کہ اپنا خیال نہ رہا۔ اور حدیثوں میں دُعا کا طریق یہ بھی آیا ہے کہ پہلے اپنی ذات کے لیے دُعا کرے پھر دوسرے کے لیے۔ نیز تنہا بھی دوسرے کے لیے دُعا کرنا ثابت ہے اور اپنے لیے بھی تنہا دُعا کرنا ثابت ہے۔ غرض یہ کہ حضرت سیدة النسائ اعلیٰ درجہ کے کمالات سے متصف تھیں۔ اور جاننا چاہیے کہ انسان کے متعلق دو قسم کے حقوق ہیں جن پر اُس کی فلاح اور نجات موقوف ہے ۔اول وہ معاملہ جو بندہ کے اور اللہ کے درمیان ہے۔ دوسرے وہ معاملہ جو اپنی ذات اور دوسرے بندوں کے درمیان ہے۔ سو عبادات کا شوق بطریق مذکور یہ اول مرتبہ کا کمال ہے اور اخلاق و عادات کا اچھا ہونا مخلوق پر شفقت ہونا یہ دوسرے قسم کا کمال ہے اور دونوں قسم کے کمال کی حکایات مذکورہ سے آپ کا کمال اچھی طرح واضح ہوگیا اور قرآن و حدیث آپ کی فضیلت کا اعلیٰ درجہ کا گواہ ہے۔ کثرت خدمت ِعلمی حضرت عائشہ اور اُس کی وجہ : حضرت عائشہ سے علمی فیض بہت کچھ جاری ہوا اِس لیے کہ آپ کی عمر زیادہ ہوئی اور دو ہزار دوسو دس حدیثیں اُن سے مختلف کتابوں میں مروی ہیں اور عبادت کا موقع بھی بوجہ زیادتی عمر خصوصاً بحالت ِخلوت بعد وفات نبی ۖ خوب ہاتھ آیا، اس لیے کہ حضور ۖ کی خدمت جو اعلیٰ عبادت تھی اُس سے اِس قدر