ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2006 |
اكستان |
|
ظالم ہیں کیا مجال ہے کہ ہم پیٹ بھر کر بھی کھالیں ہم تو اُس کے راج میں کھانے پینے کو بھی ترس گئے۔ غرض اِن کو یا شہرت اور تفاخر میں آزاد چھوڑدو جب تو خیر ہے ورنہ پھر اِن کا منہ سیدھا نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ یہ باتیں کس قدر عیب والی ہیں جن کو دُنیا کے عقلاء نے بھی عیب کہا ہے کہ کسی اخلاقی کتاب کو اُٹھاکر دیکھئے یہی لکھا ہوگا کہ اِن عیبوں سے بچو۔ مگر یہ عیب ایسے جمے ہوئے ہیں کہ عورتوں کی کوئی بات بھی اِن سے خالی نہیں، اِن کا رات دن فخر کرنے (اور شیخی بگھارنے) ہی میں گزرتا ہے۔ خاوند پر فخر، مکان پر فخر، جائداد پر فخر، نسب پر فخر۔ جب پڑھی لکھی اور دین دار عورتوں میں تفاخر و شیخی اِس طرح رچا ہوا ہے تو دُنیا والوں میں کیوں نہ ہو، اِسی طرح عورتوں کو بار بار کپڑے بدلنا اور اِسی میں گھنٹوں وقت صرف کرنا (فخر کے لیے کرتی ہیں) غرض ہر کام میں شیخی اور تفاخر موجود ہے۔ عورتوں میں زیادہ مردوں میں کم (دواء العیوب التبلیغ)۔ شیخی اور تکبر و ریاکاری سے بچنے کی عمدہ تدبیر : شیخی سے بچنے کے لیے ایک ترکیب میں نے مردوں کو سکھلائی ہے گو عورتیں اِس سے بہت خفا ہوتی ہیں مگر وہ شیخی کا علاج ہے۔ (بڑی اور سمجھ دار عورتوں کو چاہیے کہ اِس کا رواج ڈالیں) وہ ترکیب یہ ہے کہ عورتوں سے یہ تو مت کہو کہ آپس میں جمع نہ ہوں۔ یہ تو ہونا مشکل ہے اور اِس میں معذور بھی ہیں اَلْجِنْسُ یَمِیْلُ اِلَی الْجِنْسِ جنس کا میلان اپنی جنس ہی کی طرف ہوتا ہے۔ عورتوں کا دوسری عورتوں سے ملنے کا کبھی تو جی چاہتا ہے اِس لیے اس میں تو سختی نہ کرو۔ مگر یہ کرو کہ کہیں جاتے وقت کپڑے نہ بدلنے دیا کرو۔ اس کے لیے مردانہ حکومت سے کام لو اور جب کہیں جائیں تو سر پر کھڑے ہوکر مجبور کرو کہ کپڑے نہ بدلنے پائیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ گھر میںبھنگنوں اور مامائوں (نوکرانیوں) کی طرح رہیں اور ڈولی رکشہ آتے ہی بن سنور کر ''بیگم صاحبہ ''بن جائیں۔ ہر چیز کی کوئی غرض اور غایت ہوتی ہے۔ کوئی اِن سے پوچھے کہ اچھے کپڑے پہننے کی غرض غایت ہے کیا؟ صرف غیرو ںاور دوسروں کو دکھانا ہے۔ تعجب ہے کہ جس کے واسطے یہ کپڑے بنے اور جس کے دام لگے اُس کے سامنے تو کبھی نہ پہنے جائیں اور غیروں کے سامنے پہنے جائیں۔ حیرت ہے کہ شوہر سے کبھی سیدھے منہ نہ بولیں کبھی اچھا کپڑا اُس کے سامنے نہ پہنیں اور دوسروں کے گھروں میں جائیں تو شیریں زبان بن جائیں اور کپڑے بھی ایک سے ایک بڑھے چڑھے پہن کر جائیں۔ کام آئیں غیروں کے اور دام لگیں خاوند کے ،یہ کیا انصاف ہے؟ یہ باتیں ذرا شرم کی سی ہیں مگر اصلاح کے لیے کہی جاتی ہیں۔(باقی صفحہ ٤٩)