ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2006 |
اكستان |
|
یا ہے۔ برصغیر کے احناف مقلدین کے علاوہ تمام مالکی، شافعی اور حنبلی بزرگوں کی نماز کو خلاف ِسنت قرار دے کر انہیں بے نماز بنادیا ہے۔ ایں کار از تو می آید و مرداں چنیں کنند اللہ تعالیٰ ہم سب کو تعصب اور تنگ دلی سے محفوظ فرمائے اور جادۂ اعتدال پر رہنے کی توفیق دے۔ رسائل بہاولپوری کے صفحہ ٢٢١ پر جناب پروفیسر صاحب رقمطراز ہیں : ''تقلید میں نہ تو پہلے کوئی برکت تھی نہ اب۔ یہ آپ کا مغالطہ تھا کہ تقلید میں برکت ہوتی ہے۔ بھلا گمراہی میں بھی برکت ہوسکتی ہے، تقلید بہت بڑی گمراہی ہے۔'' مندرجہ بالا عبارت کے ذریعے پروفیسر صاحب نے تمام مقلدین کو گمراہی کا سر ٹیفکیٹ دے دیا ہے۔ اصل میں جس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے اُس کا اظہار کرتا ہے۔ چونکہ غیر مقلد خود گم کردہ راہ ہیں اس لیے اُنہیں دوسرے بھی گمراہ نظر آتے ہیں، بمصداق '' اَ لْاِنَائُ یَتَرَشَّحُ بِمَا فِیْہِ'' یعنی برتن میں جو کچھ ہوتا ہے وہی اُس سے ٹپکتا ہے۔ رسائل بہاولپوری کے صفحہ ٦١٤ پر موصوف گوہر فشاں ہیں کہ : ''ہماری نماز مقلدین کے پیچھے نہیں ہوتی۔'' جب کہ ائمہ اربعہ کے مقلدین کی نماز ایک دوسرے کے پیچھے ہوجاتی ہے یعنی جیسے حنفی کی نماز شافعی کے پیچھے، مالکی کی حنبلی کے پیچھے ہوجاتی ہے ایسے ہی شوافع، موالک اور حنابلہ کی نماز بھی احناف کے پیچھے ہوجاتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب امام شافعی مصر سے کوفہ آئے تو مسجد ابوحنفیہ میں نماز پڑھائی تو فقہ حنفی کے مطابق پڑھائی۔ اعتراض کرنے والے سے کہا کہ میں کب کہتا ہوں کہ امام اعظم کی نماز غلط ہے۔ اختلاف صرف فضیلت میں ہے۔ باقی یہاں میں نے نماز امام صاحب کے طریقہ پر اِسی لیے پڑھائی ہے کہ مجھے حیا آئی کہ امام اعظم کی مسجد میں اُن کے طریقے کے خلاف نماز پڑھائوں۔ ائمہ کرام کے باہمی اختلاف کی حقیقت یہی ہے جسے غیر مقلدین نہیں سمجھ سکتے۔ چنانچہ لکھتے ہیں : '' اہل حدیث کی نماز کیسے غیر اہل حدیث کے پیچھے ہوسکتی ہے؟ اہل حدیث حق اور غیر اہل حدیث باطل۔ باطل حق کا امام کیسے ہوسکتا ہے، پھر حق باطل کو اپنا امام کیسے بنا