ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2006 |
اكستان |
|
صاحب کا اس نسبت والوں کو عیسائیوں اور قادیانیوں سے برا سمجھنا اُن کی کج فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ ان ائمہ کرام کی طرف ہماری نسبت تشریفی ہے جیسے فتاویٰ ستاریہ کہنا یا فتاویٰ ثنائیہ کہنا شرک نہیں ایسے ہی ان ائمہ کرام میں سے کسی کی طرف نسبت کرنا بھی قطعاً شرک اور ناجائز نہیں ہے۔ پروفیسر حافظ محمد عبد اللہ بہاولپوری صاحب اسی رسالہ میں تحریر فرماتے ہیں : سوال : نسبت تو محمدی بہتر ہے لیکن حنفی بھی غلط نہیں۔ جواب : غلط کیوں نہیں، اصلی باپ کے ہوتے ہوئے پھر کسی اور کی طرف منسوب ہونا کس شریعت کا مسئلہ ہے۔ حضور ۖ ہمارے رُوحانی باپ ہیں تو باپ کو چھوڑکر کسی اور کی طرف نسبت کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے باپ کا نہیں یا غلط کار ہے جو اپنے کو غیر کی طرف منسوب کرتا ہے''۔ (اصل اہل سنت صفحہ ٣،٤) حضراتِ گرامی ! پروفیسر صاحب نے مندرجہ بالا عبارت میں کسی امام کی طرف منسوب ہونے والے تمام مقلدین کو غلط کار اور حرامی کہہ دیا ہے۔ یاد رکھیئے! اِس وقت دُنیا میں سوا اَرب سے زائد مسلمان ہیں، موصوف نے سب کو حرامی قرار دے دیا ہے۔ کیونکہ تمام مسلمان چاروں ائمہ میں سے کسی ایک کی تقلید کرتے ہیں۔ جہاں تک غیر مقلدین کی تعداد کا تعلق ہے تو وہ بمشکل تین چار لاکھ ہوں گے۔ ہم سب مقلد محمدی نسبت والے تو ہیں عیسائی اور موسائی وغیرہ کے مقابلہ میں لیکن ہم حنفی ہیں، شافعی، مالکی اور حنبلی کے مقابلہ میں۔ اسی رسالہ میں پروفیسر صاحب لکھتے ہیں : ''مقلد تو انسان کو جانور کہنے کے مترادف ہے، کیونکہ تقلید جانور کے گلے میں پٹہ ڈالنے کو کہتے ہیں۔ یہ جانوروں کیلئے ہے۔'' (اصل اہل سنت صفحہ ١٥) مندرجہ بالا عبارت کے ذریعے پروفیسر موصوف نے تمام مقلدین کو جانور بنادیا ہے حالانکہ لفظ'' قَلَّدَ'' اگر انسان کی طرف منسوب ہو تو قلا وہ سے مراد'' ہار'' ہوتا ہے اور اگر جانور کی طرف منسوب ہو تو '' پٹہ'' مراد ہوتا ہے۔ جبکہ تمام مقلدین بحمد اللہ مسلمان اور انسان ہیں۔ پروفیسر صاحب کو شاید اِس بات کا علم بھی نہیں کہ شریعت کے ساتھ مخصوص الفاظ میںلُغت کا اعتبار نہیں ہوتا بلکہ اصطلاح کو دیکھا جاتا ہے۔ جیسے زکوٰة سے مراد مال کو پاک کرنے کیلئے دھونا نہیں بلکہ مال کی پاکیزگی اڑھائی فی صد مال مستحقین زکوٰة کو دینے میں ہے۔ اسی طرح تقلید کے