ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2006 |
اكستان |
|
فراغت نہ تھی کہ محض توجہ الی اللہ میں مشغول ہو تیں گو وہ خدمت بھی اعلیٰ درجہ کی عبادت تھی۔ مگر باوجود اِن تمام اُمور کے حضرت فاطمہ کا درجہ بڑھا رہا، وجہ یہ ہے کہ تقرب الٰہی اور ثواب جنت کچھ کثرت کام پر موقوف نہیں بلکہ رحمت ِخداوندی اور مراتب ِایمان پر موقوف ہے۔ بعضے خاصانِ خدا تھوڑی عبادت میں بوجہ اپنی قوت ایمان اور یقین و زہد وغیرہ وہ درجہ حاصل کرلیتے ہیں جو دوسروں کو باوجود کثرت خدمت علمی و عملی میسر نہیں ہوتا کیونکہ کثرت عبادت و کثرت علم کے لیے یہ ضروری نہیں کہ جس درجہ کی عبادت ہے یا جس درجہ کا ظاہری علم ہے اُسی درجہ کا ایمان بھی قوی ہو اور تعلق دُنیا بھی نہ ہو اور زُہد و سخاوت وغیرہ بھی اُسی درجہ کا ہو، پس نظر اللہ تعالیٰ کی قلب اور نیت پر ہے مثلاً کوئی شاگرد اپنے اُستاد کی جانی مالی خدمت خوب کرتا ہے لیکن محبت اور توجہ کچھ زیادہ نہیں اور ایک دوسرا شاگرد ہے جو بوجہ عدم موجودگی مال یا کسی اور مانع کے پوری خدمت نہیں کرسکتا لیکن محبت اور تعلق اُس کو بہت زیادہ ہے اور بروقت قدرت کسی طرح اُس کو جان نثاری سے عذر نہیں، ظاہر ہے کہ اُستاد دوسرے شاگرد کی تھوڑی خدمت کو بڑا خیال کرے گا اور اُس سے محبت بھی زیادہ کرے گا۔ یہی برتائو بندوں کے ساتھ خدائے تعالیٰ کا ہے لیکن مقتضائے محبت وبجا آوری اِرشاد خداوندی یہ ضرور ہے کہ کسی درجۂ طاعت میں حتی القدور کوتاہی نہ کرے ۔خوب سمجھ لو حق تعالیٰ فرماتا ہے ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ (یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے) خدا ہی کے اختیار ہے جسے جو چاہے مرحمت فرمادے۔ حضرت اُویس قرنی رضی اللہ عنہ تمام تابعین سے ثواب میں بڑھ کر ہیں جیساکہ اشعة اللمعات اور جامع صغیر میں اس باب میں حدیث نقل کی ہے جس کا یہی حاصل ہے۔ اصلی مقصود بعثت انبیاء سے یہ ہے کہ دُنیا سے بندہ منہ موڑے اور خدا کا عاشق بنے۔ انہوں نے کس قدر اِس مرحلہ کو طے فرمایا تھا اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْھُمْ اور حضرت سعید بن المسیب کو علوم ظاہری میں اُن سے بڑھ کر اور تمام تابعین سے بڑھ کر لکھا ہے اور وہ بھی تابعین میں سے تھے لیکن ثواب اور تقرب الٰہی میں حضرت اُویس کے برابر نہ تھے۔ انسان کو چاہیے کہ حتی المقدور علوم ظاہری و باطنی تمام میں کمال حاصل کرے اور تعلیم مخلوق میں کسی درجہ اور اُن کی شفقت میں کچھ کمی نہ کرے اور اخلاق ِحمیدہ اور کمالات ِمطلوب سے متصف ہوکر محبوبانِ الٰہی میں داخل ہو، بزرگانِ دین کے قصے بیان کرنے سے عمل کی ترغیب دِلانا مطلوب ہے نہ کہ محض کہانی بیان کرنا۔ (جاری ہے)