ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2006 |
اكستان |
|
دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا بچہ اور بچی موڈرن ہیں انگریز بن رہے ہیں، ترقی یافتہ لوگوں میں شمار ہونے لگے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اُن کی آخرت برباد ہوگئی، اعمالِ بد کے خوگر ہوگئے، اسلام سے جاہل رہ گئے۔ احادیث میں ارشاد ہوتا ہے : عَنْ جَابِرٍ بْنِ سَمُرَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَأَنْ یُّؤَدِّبَ الرَّجُلُ وَلَدَہ خَیْر لَّہ مِنْ اَنْ یَّتَصَدَّقَ بِصَاعٍ (مشکوة المصابیح ص ٤٢٣ بحوالہ ترمذی) ''حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انسان اپنے بچہ کو اَدب سکھائے تو بلاشبہ یہ اِس سے بہتر ہے کہ ایک صاع غلہ وغیرہ صدقہ کرے''۔ وَعَنْ اَیُّوْبَ بْنِ مُوْسٰی عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا نَحَلَ وَالِد وَلَدَہ مِنْ نَّحْلٍ اَفْضَلَ مِنْ اَدَبٍ حَسَنٍ۔(مشکوة المصابیح ص ٤٢٣) ''حضرت عمرو بن سعیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سرور عالم ۖ نے ارشاد فرمایا کہ کسی باپ نے اپنے بچہ کو کوئی ایسی بخشش نہیں دی جو اچھے اَدب سے بڑھ کر ہو''۔ ''ادب'' بہت جامع کلمہ ہے۔ انسانی زندگی کے طور طریق کو اَدب کہا جاتا ہَے۔ زندگی گزارنے میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں آتے ہیں، بندہ اللہ جل شانہ کے بارے میں جو عقائد رکھنے پر مامور ہے اور اللہ کے احکام پر چلنے کا جو ذمہ دار بنایا گیا ہے یہ وہ آداب ہیں جو بندے کو اللہ کے اور اپنے درمیان صحیح تعلق رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ فرائض اور واجبات، سنن اور مستحبات وہ اُمورہیں جن کے انجام دینے سے حقوق اللہ کی ادائیگی ہوتی ہے اور مخلوق کے ساتھ جو انسان کے تعلقات ہوتے ہیں اُن میں اِن احکام کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے جو مخلوق کی راحت رسانی سے متعلق ہیں، ان میں بھی واجبات اور مستحبات ہیں اور اِن کی تفصیل و تشریح بھی شریعت محمدیہ میں وادر ہوئی ہے۔ یہ وہ آداب ہیں جن کا برتنا مخلوق کے لیے باعث ِراحت و رحمت ہے۔ خلاصہ یہ کہ لفظ اَدب کی جامعیت حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو شامل ہے ۔یہ جو حضور اقدس ۖ