ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2006 |
اكستان |
|
بہرحال آپ کی معلومات کے لیے جو لکھا گیا اتنا بھی کافی ہوسکتا ہے۔ جو آپ کی طلب تھی اُس کا جواب آگیا ہے کہ مروان کے واقعہ کی سند کیا ہے اور حوالہ کیا ہے اور یزید کے بارے میں ابن تیمیہ کے یہ جملے کہاں ہیں؟ اندازہ کریں یزید کا مقابلہ حضرت عمر بن عبد العزیز سے کیسے کیا جاسکتا ہے۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انہیں ساتھ ساتھ لکھنا بھی غلط ہے۔ (٥) حدیث شریف میں بارہ اماموں کا ذکر آیا ہے مگر یہ نہیں آیا کہ مسلسل ہوں گے۔ (٦) آپ نے لکھا ہے '' بلوانے والے کوفی، شہید کرنے والے کوفی، ماتم کرنے والے کوفی، اتہام لگانے والے کوفی''۔ لیکن عبید اللہ بن زیاد تو کوفی نہ تھا، وہ یزید کا گورنر تھا۔ یزید نے اُسے گورنری سے معزول بھی نہیں کیا۔ اس لیے یزید کو بھی بُرا کہا جاتا ہے۔ پھر یزید نے مدینہ منورہ پر لشکر کشی کی اور پھر مکہ مکرمہ پر، اور وہاں گولہ باری بھی کی جس سے بیت اللہ کی بنیادیں کمزور ہوگئیں اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ تعمیر کیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ میں نے ابومخنف کی روایتیں اب تک نہیں دیکھیں۔ میں نے جو کچھ لکھا تھا وہ حدیث شریف کی کتابوں سے لیا تھا۔ آپ سب سے پہلے حضرت شاہ عبد العزیز صاحب رحمة اللہ علیہ کے فتاویٰ کا مطالعہ کریں، اُس میں اِس قسم کے سوالات اور جوابات ہیں۔ وہی صحیح مؤقف ہے۔ آج تک علماء دیوبند کا بھی وہی مؤقف ہے۔ باقی لمبی بحثوں سے انسان تشویش میں پڑجاتا ہے یا پھر خود پوری طرح مطالعہ کرسکے اور کتابیں اور علماء دونوں میسر ہوں تب بھرپور اور مکمل فائدہ ہوتا ہے۔ نوٹ : آج کل '' فضائل جہاد اور طریقۂ جہاد '' پر لکھنے کی ضرورت ہے اور یہ کہ اسلام نے غریب آدمی کے لیے کیا کیا مدد کی اور اُس کی رعایت کی کیا کیاسبیلیں رکھی ہیں۔ اِس طرف جلد توجہ کریں۔ والسلام حامد میاں غفر لہ ٥مارچ ١٩٨٠ء