ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2006 |
اكستان |
|
نے فرمایا کہ اُس سے کوئی حدیث منقول نہیں ہے۔ اور اِسی طرح قاضی ابویعلیٰ وغیرہ نے ذکر کیا ہے''۔ اِسی رسالہ میں ابن تیمیہ ص ٣٠ پر ایک حاکم سے اپنی گفتگو میں یہی جملہ نقل کرتے ہیں : لَا نَسُبُّہ وَلَانُحِبُّہ فَاِنَّہُ لَمْ یَکُنْ رَجُلًا صَالِحًا فَنُحِبُّہ ۔ '' نہ ہم اُسے برا کہتے ہیں اور نہ اُس سے محبت رکھتے ہیں کیونکہ وہ کوئی صالح شخص تو تھا نہیں کہ اُس سے محبت رکھیں''۔ پھر اِن سے پوچھا گیا : اَمَا کَانَ ظَالِمًا ؟ اَمَا قَتَلَ الْحُسَیْنَ ؟ فَقُلْتُ لَہ نَحْنُ اِذَا ذُکِرَ الظَّالِمُوْنَ کَالْحَجَّاجِ ابْنِ یُوْسُفَ وَاَمْثَالِہ نَقُوْلُ کَمَا قَالَ اللّٰہُ فِیْ الْقُرْاٰنِ اَلا لَعْنَةُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ وَلَانُحِبُّ اَنْ نَّلْعَنَ اَحَدًا بِعَیْنِہ وَقَدْ لَعَنَہ قَوْم مِّنَ الْعُلَمَائِ وَھٰذَا مَذْھَب یَسُوْغُ فِیْہِ الْاِجْتِھَادُ لٰکِنْ ذَالِکَ الْقَوْلَ اَحَبُّ اِلَیْنَا وَاَحْسَنُ۔ وَاَمَّا مَنْ قَتَلَ الْحُسَیْنَ اَوْ اَعَانَ عَلٰی قَتْلِہ اَوْ رَضِیَ بِذَالِکَ فَعَلَیْہِ لَعْنَةُ اللّٰہِ وَالْمَلٰئِکَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ مِنْہُ صَرْفًا وَّلَا عَدْلًا۔ (سوال فی یزید ص ٣٠) '' کیا وہ ظالم نہ تھا؟ کیا اُس نے حضرت حسین کو شہید نہیں کیا؟ میں نے (گورنر) سے کہا کہ ہم ظالموں کے ذکر کے وقت جیسے حجاج بن یوسف اور اُس جیسے اور لوگوں کا تذکرہ ہو تو وہی جملہ کہہ دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے اَلا لَعْنَةُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ۔ اور ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ کسی کو معین کرکے (اُس کا نام لے کر) لعنت کریں۔ ہاں علماء کے ایک طبقہ نے اُس پر لعنت کی ہے اور اِس میں اجتہاد کی گنجائش ہے۔ لیکن ہمیں یہی بات زیادہ پسند ہے اور ہمارے نزدیک اچھی ہے اور حضرت حسین کو جس نے شہید کیا یا اُن کے شہید کرنے والوں کی مدد کی یا اُس پر مطمئن اور رضامند ہوا تو اُس پر خدا کی اُس کے فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہو۔ اللہ اُس سے اُس کے عذاب کا کوئی بدل قبول نہ کرے''۔