ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2005 |
اكستان |
|
اصل مسئلہ کی حقیقت اور غلط فہمی کا ازالہ : اصل مسئلہ کی حقیقت کچھ اور ہے جس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے اورجس کے نتیجہ میںتین طلاقوں کو ایک طلاق سمجھا جانے لگا، اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔وہ یہ کہ کسی واقع شدہ امر میں اس واقعہ کی کسی کو خبر دینا یہ'' تکرار'' کہلاتا ہے مثلاً آپ سے کسی نے دریافت کیا کہ آپ نے نماز فجر پڑھی ؟ آپ نے کہا جی ہاں پڑھی، پھر دوسرے اورتیسرے شخص نے دریافت کیا آپ نے فجر کی نماز پڑھی؟ ہر ایک کو آپ نے یہی جواب دیا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ نے فجر کی نماز دواورتین بار پڑھی بلکہ ایک ہی مرتبہ پڑھی اوراسی مرتبہ پڑھنے کی کئی مرتبہ خبردی اِس کو تکرار کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی ،کسی نے اُس سے پوچھا کہ تم نے اپنی بیوی کو طلاق دی؟ اس نے کہا ہاں ۔ پھر دوسرے اورتیسرے نے پوچھا، اس کو بھی آپ نے یہی جواب دیا، یا ایک ہی شخص کو آپ نے تاکیدی طورپر کئی بار کہا کہ جی ہاں! میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ،تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس نے تین طلاقیں دیں بلکہ یہ ایک ہی طلاق کی اطلاع اور سابق واقعہ کی خبر ہے۔ اس طرح اگر تین مرتبہ نہیں بلکہ دس مرتبہ بھی کوئی پوچھے تو اس سوال وجواب کے بعد ایک طلاق ایک ہی طلاق رہے گی ، ایک طلاق تین طلاق نہ ہوجائیں گی، کیونکہ واقعةً اُس نے ایک ہی طلاق دی تھی۔ اس کے برخلاف اگر واقعةً کسی نے دو یاتین طلاق ہی دے ڈالیں جیسا کہ آج کل لوگ تین طلاق دیا کرتے ہیں اورپھر سمجھتے ہیںکہ تین طلاق سے ایک طلاق ہوئی، یہ بالکل غلط اورخلاف عقل ہے کیونکہ یہ سابق واقعہ کی اطلاع اورتکرار نہیںہے بلکہ اِس میں خبر دینے اورسابق طلاق کی اطلاع اورتکرار کی تاویل کی گنجائش ہی نہیں، کیو نکہ جب اُس نے واقعةً تین طلاق واقع کردیں تو تین ہی واقع ہوں گی ۔ عہد ِصحابہ کے ابتدائی دور میں ایسا ہوتا تھا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی ، دوسری اور تیسری طلاق نہ دی، پھر اُس پہلی طلاق کی اطلاع اوراُس کا تکرار واعادہ کیا تووہ ایک سمجھی جاتی تھی گو اُس کا تکرار کئی بار ہوا، کیونکہ یہ تکرار واعادہ پہلی ہی طلاق کا ہوتا تھا اِس کے بعد میں لوگ دواور تین طلاق ہی واقع کرنے لگے ،اور تین طلاق دے کر بھی تاویل کرنے لگے کہ یہ پہلی طلاق کی خبر اور اطلاع وتکرار ہے حالانکہ یہ تومشاہدہ بلکہ طلاق دینے والے کے اقرار کے بھی خلاف ہوتا ہے۔ تین طلاق دینے والے سے اگر پوچھا جائے کہ تم نے کتنی طلاق دیں تو صاف صاف کہتا ہے کہ تین ، پھر اِس کو تکرار و تاکید کی تاویل کرکے ایک طلاق کیسے کہاجاسکتا ہے؟