ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2005 |
اكستان |
|
لیکن اگر تین دے گا تو تینوں واقع ہو جائیں گی اگرچہ اس طرح کرنے سے گناہ گارہوگا ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک حقیقت پائی جائے اوراُس کا انکار کردیا جائے ، مثلاً عیدین اورایام تشریق میں رسول پاک ۖ نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے اوراِس بناپر اُمت کا فیصلہ ہے کہ ان دنوں میں روزہ رکھنا حرام ہے لیکن اس کے باوجود اگر کوئی روزہ رکھے توروزہ کی حقیقت پائی جائے گی اوراُس کاروزہ ہو جائے گا لیکن یہ شخص گنہگار اورمرتکب ِحرام ہوگا۔ اسی طرح مثلاً اگر کوئی شخص حالت ِحیض میں اپنی بیوی کو طلاق دے ڈالے تو ناجائز وحرام ہے لیکن طلاق واقع ہو جائے گی ، اسی طرح اِس کو بھی سمجھئے کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا حرام ہے لیکن اگردے گا تو سب واقع ہو جائیں گی کیونکہ مرد تین طلاقوں کا مالک ہے عورت تین طلاق کی محل ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک حقیقت پائی جائے اوراُس کا انکار کردیا جائے۔طلاق واقع کی جائیں تین، اورواقع ہو ایک ؟ آپ مغرب کی یاوتر کی تین رکعتیں پڑھیں اور سمجھی جائے ایک؟ زکٰوة وصدقہ میں آپ جتنی رقم خرچ کریں گے اتنا ہی خرچ کرنا سمجھا جائے گا ، یہ نہیں کہ خرچ کریں تین ہزار اورسمجھا جائے ایک ہزار۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری شرح بخاری میںعلامہ قرطبی کے حوالہ سے اس حقیقت کوواضح فرمایا ہے اورمثالوں سے واضح کیا ہے کہ طلاق ہی نہیں اعتاق اوراقرار میں بھی اگر کوئی شخص ایک ساتھ ایک جملہ میں کئی غلاموں کو آزاد کرے یا کئی لوگوں کے لیے ایک جملہ میں اقرار کرے، یاایک ہی شخص کے لیے ایک جملہ میں کئی اقرار کرے کہ فلاں کا میرے اُوپر قرضہ اور اتنی امانت ہے تو یہ اعتاق اور اقرار سب درست ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی ولی کئی بیٹیوں کا نکاح ایک ساتھ ایک جملہ میں کردے تو وہ نکاح درست ہوتا ہے محض ایک ساتھ ایک جملہ یاایک مجلس میں ہونے کی بنا پر صرف ایک اقرار ایک نکاح ایک اعتاق نہیں سمجھا جاتابلکہ سب درست اورنافذ سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک ساتھ واقع ہوئی تین طلاقوں کو بھی سمجھنا چاہیے۔ ''قال الحافظ قال القرطبی لافرق بین مجموعھا ومفرقھا لغة وشرعا وما یتخیل من الفرق صوری الغاہ الشرع اتفاقا فی النکاح والعتق والاقاریر، فلوقال الولی انکحتک ھذہ وھذہ فی کلمة واحدة العقدکما لو قال انکحتک ھذہ وھذہ وھذہ وکذا فی العتق والاقرار وغیرذلک من الاحکام ۔ (فتح الباری ٩/٤٥٦)