ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2005 |
اكستان |
|
ورکس تاریخ کا تسلسل ہے ،اسی سے تحریکات جِلا پکڑتی ہیں ،اُن کے اندر تازگی آتی ہے اُن کی تجدید ہوا کرتی ہے قدیم تعلق : حضرت مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ کا تذکرہ تو میں نے ملتان میں اپنے گھر ہی میں سنا ،حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا تعلق حضرت مولانا کے ساتھ کچھ اِس طرح تھا کہ حضرت مولانا کے والد حضرت مولانا محمد میاں صاحب رحمہ اللہ وہ مفتی صاحب کے اُستاد تھے مُراد آباد میں اوردورانِ درس مولانا حامد میاں صاحب مفتی صاحب کے شاگردبن گئے ١ اوریہ جو ایک اُستاد شاگرد کا رشتہ بن جاتا ہے اورپھر جمعیت علماء کے حوالے سے ایک نظریاتی وحدت بھی اُن کے درمیان آگئی تو آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ خاندانی اعتبارسے ہمار ااِس خاندان سے کیا تعلق ہو سکتا ہے اوروہ کتنا گہرا تعلق ہوگا اس کے احساسات کتنے گہرے اورعمیق ہوں گے؟ اورجو خط محمود میاں بھائی نے اپنی گفتگو میں ذکرکیا یہ میری پیدائش سے پہلے کا ہے ٢ اورمولانا مفتی صاحب رحمہ اللہ کی عمر ٣٥ سال کی ہوگی اُس وقت ،لیکن ذاتی طورپر میرا تعارف حضرت مولانا کے ساتھ نہیں تھا براہِ راست تعارف نہیں تھا۔ جن دنوں میں میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں پڑھتا تھا منتہی طالب علم تھا، ہمارے علاقہ کے کچھ طلباء لاہور کے ایک مدرسہ میں پڑھتے تھے۔ تو میں جب کبھی لاہور آتا تھا تووہاں اُن کے پاس ملنے چلا جاتا تھا رات بھی وہیں گزارلیتا تھا۔ اورجب مولانا حامد میاں صاحب کے پاس یہاں حاضری دیتا تھا تو وہ مجھے فرماتے تھے کہ بھئی آپ کا مدرسہ یہ ہے آپ یہاں ٹھہرا کریں اور محمودبھائی بھی مجھے بڑ ی معصومیت سے کہتے تھے کہ آپ یہاں رہا کریں ۔اُس وقت مجھے اِس رشتہ اور اِس تعلق کی گہرائی کا اندازہ نہیں تھا اورمجھے علم نہیں تھا کہ مولانا حامدمیاں مجھے جس مدرسہ کے بارے میں کہتے تھے یہ آپ کا گھر ہے یہ آپ کا مدرسہ ہے آپ یہاں رہیں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرا مسکن بن جائے گا پوری جماعت کا مسکن بن جائے گا مرکز بن جائے گا ۔ حضرت کی مجھ پر شفقت ِپدری : جو حالات بھی آئے جن حالات کا تفصیلی تذکرہ ابھی ہوا کہ کس طرح مولانا حامد میاں صاحب نے اس تعلق کونبھایا اورمیرے ساتھ ذاتی طورپر اُن کا تعلق ایک باپ کا سا تھا، جیسے ایک باپ ایسے وقت میں کسی کی سرپرستی کرتا ہے کسی کے لیے سایہ بنتا ہے ایک اولاد کے لیے سایہ بنتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں یہ وہ دن تھے جب ١ گزشتہ ماہ کے شمارہ میں مولانا سید محمود میاں صاحب کے بیان میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ ٢ ایضاً