ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2005 |
اكستان |
|
جمعیت علمائے اسلام کو بچانے کی ضرورت تھی اور جب ہمارے لیے کسی مدرسے اورمسجد میں قدم رکھنا مشکل تھا تو حضرت مولانا نے جامعہ مدنیہ کو جمعیت علمائے اسلام کے لیے قدم گاہ بنایا۔ مقصود بالذات نظریہ ہوتا ہے : اورظاہر ہے غیر معمولی شخصیات یقینا اہم ہوتی ہیں ۔ شخصیات کی اہمیت کا کبھی انکار نہیں ہوا کرتا لیکن مقصود بالذات اورسب سے زیادہ اہم وہ نظریہ ہوتا ہے وہ نصب العین ہوتا ہے جس کی حامل وہ شخصیت ہواکرتی ہے کیونکہ شخص تو فانی ہے آج ہے کل نہیں ہے لیکن بقا ء ودوام جس کو چاہیے اگر وہ شخصیت اُس عقیدہ اور نظریہ بقاء و دوام کے لیے اپنی زندگی میں استعمال کرتا ہے اوروہ عقیدہ اور نظریہ زندہ رہ جاتا ہے تو اُمت بھی زندہ ہے ہم بھی زندہ ہیں اورآپ سب بھی زندہ ہیں ۔ مثال سے وضاحت : چنانچہ آپ دیکھیں غزوہ اُحد کے موقع پر جب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اجمعین کی جماعت کو جو تکلیف ہوئی ، ٧٢ صحابہ کرام شہید ہوئے ۔ حضور ۖ خود زخمی ہوئے ، پناہ گاہ میں بھی جانا پڑا اورافواہ پھیلا دی گئی کہ حضور ۖ شہید ہو گئے ہیں تو ظاہر ہے اِس پر ایک مختلف قسم کا ردِ عمل آیا کچھ تو میدان میں ڈٹے رہے، کچھ نے تلواریں توڑدیں اوربیٹھ گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس صورتِ حال پر صحابہ کرام کو جھنجوڑا کہ نہیں اس طرح نہیں ۔حضرت محمد ۖ تو بس اللہ کے ایک پیغام رساں ہیں اورپہلے بھی پیغام رساں آئے اورچلے گئے تو اگر آج یہ شخصیت کسی وجہ سے آپ میں موجود نہ رہے تو کیا تم پھر اپنے مقصد سے پیچھے ہٹ جائو گے پسپائی اختیار کر جائو گے؟ اوریہ احساس دلایا کہ اپنی وابستگی جو ہے اُس مقصد سے رکھو اُس نصب العین سے رکھو جو میں نے آپ کو عطا کیا ہے اورپھر جب جنگ کا منظر انجام کو پہنچا اور کفار کی جماعت بظاہر اپنے آپ کو فاتح تصور کررہی تھی کہ ہم نے اِن سے بدر کا بدلہ لے لیا ہے تو ابوسفیان جو اُس وقت لشکرِ کفار کا سالار تھا اُس نے آواز دی اَفِےْکُمْ مُحَمَّد کیا تم میں محمد موجود ہیں (ۖ) ؟صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا جواب دیں؟ حضور علیہ الصلٰوة والسلام نے فرمایا لَا تُجِیْبُوْا جواب مت دو۔ اب اس کا خیال ہوا کہ شاید یہ قیادت چلی گئی پھر اُس نے آوازدی ۔ اَفِیْکُمْ اَبُوْبَکْرِ بْنُ اَبِیْ قُحَافَةَ تم میں ابوبکر موجود ہیں( رضی اللہ عنہ) ؟ صحابہ کرام نے پھر حضور علیہ الصلٰوة والسلام سے پوچھا کہ کیا جواب دیں ۔ فرمایا لَا تُجِیْبُوْا جواب مت دو ۔ اس کا خیال ہوا کہ جانشین بھی نہیں رہا ۔پھر اس