ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2005 |
اكستان |
|
چہر ہ پر انوارات : لیکن عجیب سی کیفیت ہوتی تھی جتنی رات گزرتی جاتی تھی حضرت کے چہرے پر سفیدی بڑھتی چلی جاتی تھی اورخاص طورپر جب وہ تصوف کے موضوع پر چلتے تھے تو دھیمی آواز میں بولنے والا آدمی رفتہ رفتہ ان کی آواز میں ایک گرج پیدا ہوتی تھی ایک اوروصف پید اہوتا تھا۔ لیکن چونکہ میرے تو امیر تھے اور میں جماعت کا ناظم عمومی۔ میں کبھی کہتا کہ حضرت آپ گھر سے باہر تو نکلیں کبھی تو بڑے لطیف انداز میں فرماتے تھے کہ خیال رکھومیں قطب ہوں اورقطب کو اپنی جگہ سے ہلائو مت ورنہ تو پھر درجہاںخللے واقع شود یعنی جہاں میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا ۔ فرض منصبی اورجماعتی اُمورپر گہری نظر : لیکن کبھی کبھی ہم سوچتے تھے کہ حضرت تو گھر بیٹھنے والے آدمی ہیںاورہم اپنے انداز سے کبھی بے باکی بھی کرتے تھے لیکن جب میں حاضر ہوتا تو جس انداز سے وہ میرا حساب کتاب لیتے تھے تنہائی میں، تو وہ پھر مجھے معلوم ہے کہ کیاگزرتی تھی ۔ساتھی کہتے ہیں کہ وہ غصہ نہیں کرتے تھے مجھ سے پوچھو کہ وہ غصہ کرتے تھے اورکس طرح وہ گرفت کرتے تھے غلطیوں پر اورکس طرح وہ پھر نئی ہدایات دیتے تھے ۔ تو یقینا ایک شخص گھر بیٹھے بیٹھے بھی پوری جماعت کو چلا رہا تھا اورفیلڈ میں جو ساتھی کام کررہے تھے جو متحرک ہوتے تھے اُن کو طلب کرنا اُن سے تمام رپورٹ لینا اُن کی کمزوریوں کی نشاندہی کرنا اُن پر سرزنش کرنا نئی ہدایات دینا، یہ طویل کئی سالوں پر محیط ایک سفر ہے جس کا میں ذاتی طور مشاہد ہوں میرے ہی مشاہدہ میں ہوسکتی ہیں وہ ساری باتیں ۔ اُن کی جماعت اورجامعہ : بہر حال آج وہ ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی جمعیت ہم میں ہے ان کا جامعہ ہم میں ہے اُن کی فکر ہمارے اندر ہے ۔اللہ نے اُن کو صاحب ِعلم اولاد دی ہے وہ ہم میں ہیں ۔ جب ہم اُن کو دیکھتے ہیں تو ان میں حامد میاں صاحب نظر آتے ہیں اوروہ جو ایک محبت اوراپنائیت کا ایک تعلق ہمیں ورثہ میں دے گئے تھے اللہ تعالیٰ ا س کو ہماری آنے والے نسلوں کی طرف منتقل کرے یہ رُکے نہیں ہماری یہ خواہش ہے کہ چلتا رہے ۔ موجودہ سیاست کا نقشہ حضرت کے ذہن میں اُس وقت بھی تھا : تو بہر حال جمعیت علمائے اسلام اورپھر متحدہ مجلس عمل اورتمام دینی جماعتوں کا ایک تصور اُس وقت حضرت