ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2005 |
اكستان |
|
طلاق ایک ناخوشگوار ضرورت اوراُس کا شرعی طریقہ ( حضرت مولانا مفتی محمد زیدمظاہری، انڈیا ) علماء عرب اور سعودی حکومت کا فتوٰی : سعودی حکومت کی طرف سے ایک مجلس '' اللجنة الدائمةللبحوث العلمیة والافتاء ''قائم ہے جس میں پورے ملک کے منتخب علماء وصلحاء شریک ہیں جس کے تحت مختلف مسائل پر دلائل کی روشنی میں بحث کرکے وہ اپنا آخری فیصلہ دیتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں انہوں نے ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقوں کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر کیا ہے کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں عہدِ نبوی ۖ میں تین ہی سمجھی جاتی رہی ہیں ، اور اسی پر عمل ہوتا رہا ہے اور اسی کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے باقاعدہ قانونی شکل دے دی ، اور پھر پوری اُمت اس پر عمل کرتی رہی ہے ۔ تمام روایتوں کو نقل کرنے کے بعد مجلس اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ ''القول بوقوع الطلاق اللثلث بلفظ واحد ثلاثا ''کہ ایک جملہ میں تین طلاق دینے سے تینوں واقع ہو جاتی ہیں۔ (ماخوذ از ماہنامہ جامعة الرشا د اعظم گڑھ ۔جلد دوم شمارہ ١٧ ، بابت جون ١٩٨٢ئ۔ گلشن مالیگائوں جلد ٢ شمارہ ١٤،١٥)۔ شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کا بھی یہی نقطہ نظر ہے کہ ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقوں سے تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں اوراُس کی بیوی اُس پر حرام ہوجاتی ہے ، چنانچہ ان کے صاحبزادے شیخ عبداللہ نے اپنے رسالہ ''الھدایة السنیة ''میں طلاق ثلاثہ کے متعلق اپنے اوراپنے والد کا یہی مسلک تحریر فرمایا ہے جو جمہور علماء اورائمہ اربعہ اور جمہور صحابہ کا رہاہے ،تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ''شیخ محمد بن عبدالوہاب کے خلاف پروپیگنڈہ ص٦٣، مصنفہ مولانا محمد منظورنعمانی ''۔ عقل وقیاس کا مقتضیٰ : تین طلاق واقع کرنے سے تین ہی طلاق واقع ہونا عقل وقیاس کا بھی تقاضا ہے، اوریہ اتنی واضح اور بدیہی حقیقت اورہر شخص کی عقل میں آنے والی بات ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔موٹی سی بات ہے کہ شریعت نے جب مرد کو ایک نکاح میں تین طلاق کا مالک بنایا ہے گوبیک وقت تین طلاق دینے سے منع بھی کیا ہے